Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, March 28, 2024

خیبر پختوخوا میں سیاسی سرگرمیوں کا صورتحال

خیبرپختونخوامیں 9 مئی کے سیاسی تخریب کاروں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں بہت سے پولیس کی گرفت میں آچکے ہیں،کچھ کوعدالتوں سے ریلیف میسرآیاہے توکچھ تاحال روپوش ہیں جنکی روپوشی پرسوالیہ نشان ثبت ہورہے ہیں یاتویہ سیاسی راہنماکوئی سلیمانی ٹوپی پہن کر غائب ہوچکے ہیں جوپولیس کونظرنہیں آرہے،یاپھرآنکھوں پراحسانات وغیرہ کی پٹیاں بندھ چکی ہیں پشاورمیں ایک ایس ایچ اواسی بناپرگرفتارہوچکے ہیں کہ وہ سیاسی راہنماکوروپوشی میں مددفراہم کررہے تھے۔ تحریک انصاف نے صوبے میں پونے دس سال تک حکومت کی ہے اس دوران سینکڑوں لوگ اسی حکومت نے بھرتی کروائے ہیں،من پسندجگہوں پرتعیناتیاں اورتبادلے کروائے ہیں یاانہیں انکوائریوں وغیرہ میں مددفراہم کی ہے ان احسانات کا بدلہ اب ریلیف کی صورت میں مل رہاہے۔پرویزخٹک کوچوتھے ہفتے یادآیاکہ 9مئی کواچھانہیں ہوااسلئے انہوں نے تحریک انصاف کی صوبائی صدارت چھوڑکرنومئی کے واقعات کی مذمت کی اسدقیصربھی انکے ساتھ مہربلب موجودتھے۔ پرویزخٹک نے اس سے ایک روزقبل بیان جاری کیاتھاکہ وہ عمران خان کیساتھ ہیں انکی پریس کانفرنس معنی خیزہے انہوں نے دوستوں سے مشاورت کے بعدآئندہ لائحہء عمل طے کرنے کاعندیہ دیا۔محمودخان دورکے متحرک صوبائی وزیرکامران بنگش نے بھی تین ہفتے بعدنامعلوم مقام سے ویڈیوپیغام میں 9مئی واقعات کی پرزورمذمت کی ہے اورملوث ملزمان کوقرارواقعی سزادینے کامطالبہ کیاہے۔مرادسعید اورمحمودخان تاحال عدم پتہ ہیں ان کاپتاٹھکانہ کسی کومعلوم نہیں مراد سعیدکے افغانستان فراراورجمعہ کوکرک سے گرفتاری کی غیرمصدقہ افواہیں بھی زیرگردش رہیں۔ ڈی آئی خان سے سابق ایم پی اے اورعلی امین گنڈاپورکے ذاتی مخالف آغازخان گنڈاپورنے بھی تحریک انصاف سے راہیں جداکرلی ہیں جبکہ پشاورسے غلام احمدبلورکوشکست دینے والے ایم این اے شوکت علی نے بھی تحریک انصاف کوخیربادکہہ دیاہے۔صوابی سے شہرام ترکئی کے چچاعثمان ترکئی کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کوخاندانی تنازعہ قراردیاجارہا ہے۔ ایک جانب یہ سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب اے این پی کے صوبائی صدرایمل ولی خان نے ہائیکورٹ میں رٹ دائرکی ہے کہ دہشت گردوں کی صوبے میں دوبارہ آباد کاری پرجوڈیشل کمیشن تشکیل دیاجائے جو تحقیقات کرے کہ دہشت گردوں کی دوبارہ آمد کس قانو ن یامعاہدے کے تحت ہوئی ہے،پی ٹی آئی کے سابق دورِحکومت میں طالبان کیساتھ معاہدے ہوئے جس کی بدولت خیبرپختونخوامیں طالبان دوبارہ آبادہورہے ہیں جس کے سبب دہشت گردی واقعات میں اضافہ ہورہاہے۔ انہوں نے اپنی رٹ میں صدرپاکستان، عمران خان،سابق وزیراعلیٰ محمودخان،مشیروزیر اعلیٰ بیرسٹرسیف اورآئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمیدکوفریق بنایاہے۔سماعت جسٹس عبدالشکوراورجسٹس وقاراحمدپرمشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔ دورانِ سماعت جسٹس عبدالشکورنے استفسارکیاکہ ایمل ولی کون ہے اورکیاکام کرتاہے؟کیاپہلے کبھی ایساہواہے کہ کمیشن بنانے کاحکم عدالت نے دیاہو؟کمیشن بنانے کااختیاروفاقی حکومت کے پاس ہے آپ پہلے حکومت سے رابطہ کریں یاپھراس حوالے سے عدالتی فیصلے ہوں تواسکی تفصیل فراہم کی جائے۔جس پروکیل بابریوسفزئی نے دوہفتے کی مہلت طلب کی جو دے دی گئی۔ایمل ولی کون ہے اورکیاکام کرتاہے؟ریمارکس پراے این پی کارکنوں کی جانب سے ناراضگی کااظہار کیاگیا۔ ایمل ولی نے بھی اپنے ٹویٹ پیغام میں کہاکہ بہترہوتاجج صاحب میرے بارے میں چیف جسٹس صاحبہ سے پوچھ لیتے،یقیناًانہیں معلوم ہوگا کہ میں کون ہوں؟میراتعلق اس جماعت سے ہے جس نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ یقینی بنایاکہ ججزکی تعیناتی حسب ونسب سے بالاترہوگی اسی کے سبب تمام ججزصاحبان کی تقرری عمل میں آتی ہے جن میں مذکورہ جج صاحب بھی شامل ہیں تعجب ہے کہ اہم نوعیت کے اس کیس میں مجھ پرہی سوال اٹھایاگیا۔اے این پی کے کارکنوں نے جج صاحب کی اس بات کاخاصابرامنایااورسوشل میڈیاپرانکے خلاف ”عبدلشکورکون ہے“ کاٹرینڈچلایاگیا۔
جماعت اسلامی امریکہ میں عافیہ صدیقی سے مشتاق احمدخان اورفوزیہ صدیقی کی ملاقات پرپھولے نہیں سمارہی پارٹی کارکنوں کاکہناہے کہ اگرسینیٹرمشتاق احمدخان کردارادانہ کرتے توعافیہ صدیقی سے ملاقات ممکن نہ تھی دوسری جانب جماعت اسلامی نے خوشحال خیبرپختونخوا کے عنوان سے اپنے منشورکااعلان کیاہے صوبائی امیرکے مطابق جنرل الیکشن سے قبل صوبے کے زیرانتظام تقریباً40 محکموں سے متعلق ورکنگ پیپرزکی ڈرافٹنگ کاکام مکمل کرلیاگیاہے جبکہ وفاق سے حقوق کے حصول کیلئے بھی جامع روڈمیپ دیاگیاہے۔پروفیسرابراہیم کے مطابق جنرل الیکشن کااعلان ہوتے ہی جماعت اسلامی صوبے کیلئے شیڈوکابینہ کااعلان بھی کردے گی۔
صوبے کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات پاٹااوروفاق کے زیرانتظام پاٹاکوصوبے میں ضم ہوئے پانچ سال مکمل ہوچکے ہیں جس کے ساتھ ہی ان علاقوں کوٹیکس میں دی گئی چھوٹ کادورانیہ بھی 30جون کومکمل ہوجائیگا۔مزیدچھوٹ نہ ملنے کی صورت میں سابقہ قبائلی علاقے بھی ٹیکس نیٹ میں شامل ہوجائینگے۔یادرہے خیبرپختونخوااسمبلی نے 27مئی2018 ء کوفاٹااورپاٹاکوخیبرپختونخوامیں شامل کرنے کی منظوری دی تھی پارلیمان کی منظوری کے بعدصدرمملکت نے31مئی کو25ویں آئینی ترمیم پردستخط کئے تھے جس سے یہ علاقے باقاعدہ طورپرصوبے میں ضم ہوگئے تھے۔اسکے ساتھ ہی ان علاقوں کوپانچ سال کیلئے ٹیکس چھوٹ دی گئی تھی مگرصوبائی اسمبلی نے ایک قراردادکے ذریعے وفاق سے دس سال چھوٹ کامطالبہ کیاتھا۔ جے یوآئی (ف)نے انضمام کی مخالفت کی تھی ترجمان عبدالجلیل جان کاکہناہے کہ فاٹااورپاٹاکا انضمام چونکہ تیاری کے بغیرہورہاتھا اسلئے جے یوآئی نے مخالفت کی تھی لیکن ہم واضح کرناچاہتے ہیں کہ اگرپانچ برسوں کے دوران ان علاقوں کو کووعدے کے مطابق 100ارب روپے فراہم نہیں کئے گئے توٹیکس چھوٹ کیسے ختم کی جاسکتی ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے سال 2019-20میں پہلی مرتبہ معمول سے ہٹ کرضم اضلاع کیلئے فنڈزفراہمی کاسلسلہ شروع کردیاگیاتھاجس کے تحت غیر ترقیاتی مدمیں 79ارب جبکہ ترقیاتی کاموں کیلئے 72ارب روپے مختص کئے گئے تھے تاہم فراہمی بالترتیب66 اور37ارب کی ہوئی جبکہ صوبے نے 11ارب روپے فراہم کئے۔2020-21کے دوران وفاق نے گرانٹ کی صورت میں 73ارب ر وپے مختص کئے،15ارب کی اضافی گرانٹ سمیت37ارب ترقیاتی کاموں کیلئے مختص ہوئے جبکہ مجموعی طورپر118.6ارب روپے فراہم کئے گئے۔ 2021-22ء کیلئے 186ارب مختص جبکہ109.9ارب روپے فراہم کئے گئے سال2022-23کیلئے مجموعی طورپر208.6ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔محمودخان دورکے ایڈوکیٹ جنرل شمائل بٹ کاکہناہے کہ صوبہ میں ضم قبائلی علاقہ جات کوٹیکس چھوٹ 25ویں آئینی ترمیم نہیں بلکہ ایف بی آرکی جانب سے جاری کردہ 2نوٹیفکیشنز کے ذریعے دی گئی تھی ان دونوں اعلامیوں کی مدت 30جون کوختم ہورہی ہے چھوٹ کو برقراررکھنے کیلئے قانون سا زی کرنی ہوگی یاپھرنوٹیفکیشز جاری کرنے ہونگے بصورت دیگرملک بھرکی طرح یہاں کے باسیوں کوبھی ٹیکس ادا کرناپڑے گا۔ صوبے کے ممتازسیاستدانوں،وکلاء،بیوروکریٹس اوردیگرشعبہ ہائے زندگی سے متعلقہ افرادنے وفاق سے ضم قبائلی اضلاع کیلئے مزیدٹیکس چھوٹ کامطالبہ کیاہے وفاق نے وعدے کے مطابق سوارب روپے فراہم کئے ہیں نہ ہی دیگرصو بوں نے این ایف سی سے اپناحصہ اداکیاہے تباہ حال قبائلی اضلاع ابھی ٹیکس دینے کے قابل نہیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket