Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, April 20, 2024

یوکرین کی صورتحال، مغربی میڈیا اور نیا بلاک

یوکرین کی صورتحال، روس کی پیش قدمی، نئی عالمی صف بندی اور اس صورتحال سے پیدا ہونے والے سوالات اور خدشات میں عالمی سطح پر ایک نئی بحث اور بیانیہ کو جنم دیا ہے جس کے چیدہ نکات یہ ہیں۔

1. امریکہ اور نیٹو نے پھر ثابت کیا کہ ان پر نہ تو اعتماد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی انحصار

2. افغانستان کی جنگ نے نیٹو اور امریکہ کی ثاقب بالادستی اور طاقت کو بری طرح متاثر کیا۔

3. یہ تصور پھر درست ثابت ہوا کہ جنگیں دوسروں کی بجائے خود لڑنا پڑتی ہیں۔

4. مضبوط معیشت کا فارمولا اپنی جگہ مگر مضبوط دفاع ریاستوں اور قوموں کے لیے ناگزیر

5. ایشیاء دفاعی اور معاشی ترقی اور طاقت کا مرکز قرار اور نئے بلاک کے قیام کے امکانات

اس حملے نے جہاں اس بات کو ثابت کیا کہ دنیا میں ری ایلایمنٹ ہو رہی ہے اور مستقبل کی دفاعی، معاشی اور سماجی طاقت کا مرکز امریکہ یا یورپ کی بجائے ہمارا خطہ ہوگا وہاں مغرب کی گرفت افغانستان، پاکستان اور اب یوکرین وغیرہ پر جس تیزی سے ڈھیلی پڑ گئی ہے وہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

یہ بحث بھی چل نکلی ہے کہ بعض سیاسی کمزوریوں اور معاشی مجبوریوں کے باوجود مضبوط دفاع کسی بھی معاشرے قوم اور ریاست کی اولین ضرورت اور ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے اور یہ کہ دوسروں پر انحصار کرنے کا تجربہ بار بار غلط ثابت ہوتا آیا ہے۔
یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ دنیا خصوصاً ساؤتھ اور سینٹرل ایشیاء میں روس، چین، پاکستان، امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر انحصار کم کرنے لگا ہے اور بتدریج نئے راستے ڈھونڈ رہا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کی توجہ جہاں سکیورٹی کے حوالے سے کافی بہتر رہی وہاں اب کوشش کی جا رہی ہے کہ سیاسی اصلاحات متعارف کرائے جائیں اور معاشی استحکام کو یقینی بنایا جائے۔ اس ضمن میں جہاں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ عالمی سطح پر دوست اور پارٹنر تلاش کیے جائیں وہاں شورش زدہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان کی مین سٹریمنگ کر کے ان علاقوں کو ترقی دی جا سکے۔

یوکرین پر ہونے والے حملے نے جہاں نیٹو اور امریکہ کی پالیسیوں کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے وہاں اس نے مغربی میڈیا کو بھی پھر سے اس کی جانبداری اور ایجنڈا بیسڈ رپورٹنگ کے حوالے سے بے نقاب کردیا ہے۔ مثال کے طور پر مغربی میڈیا نے اس دوران انسانی حقوق اور ریاست کی خودمختاری کو اپنی خبروں اور تبصروں میں سرفہرست رکھا تاہم کہیں پر یہ بات نہیں کہی گئی کہ یہی امریکہ اور اس کے اتحادی جب 20 برسوں سے افغانستان، عراق اور لیبیا پر بمباری کر رہے تھے تب اس میڈیا کو یہ عوامل کیوں یاد نہیں آئے؟

 

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket