Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, March 29, 2024

کرونا کی نئی لہر اور فنڈز کے غیر قانونی استعمال کے الزامات

خیبر پختونخوا سمیت ملک کے متعدد دوسرے بڑے شہروں میں کرونا کی تیسری لہر کی شدت میں نہ صرف یہ کہ غیر معمولی اضافہ ہوا ہوا ہے بلکہ اس سے درجنوں افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ مریضوں کی تعداد کی فہرست میں پشاور، کراچی اور اسلام آباد سرفہرست ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بعض ہسپتالوں میں پھر سے ایمرجنسی نافذ ہو گئی ہے تو درجنوں تعلیمی ادارے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود کہ مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے نہ تو انتظامیہ سختی سے کام لے رہی ہے اور نہ ہی عوام ماسک،  فاصلہ رکھنے یا دیگر حفاظتی اقدامات پر عمل کر رہے ہیں۔

 نئی لہر نے متعدد ترقی یافتہ ممالک کو پھر سے لپیٹ میں رکھا ہے اگرچہ خوش قسمتی سے پاکستان نسبتاً متعدد دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہلاکتوں اور نقصانات سے بچا رہا ہے تاہم اب کی لہر کو نظرانداز کر نا حالات کے خطرناک حد تک خراب ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے حکومت اور عوام دونوں احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے خود کو اور اپنی نئی نسل کے تحفظ کو یقینی بنائیں کیونکہ اب کے بار مریضوں یا متاثرین میں بڑی تعداد پہلے کے برعکس بچوں کی ہے۔

 حکومت نے نامسائد حالات کے باوجود ویکسینیشن پراسیس کے دوران جو سہولیات اور آسانیاں فراہم کیں بعض حلقوں نے اس سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب کے بار حکومتی اداروں کو ایسے عناصر کے ساتھ سختی سے پیش آنا چاہئے کیونکہ یہ کسی فرد واحد یا کسی ایک خاندان کا مسئلہ نہیں رہا۔

 میڈیا رپورٹس میں کرونا سے بچاؤ کے لیے جو فنڈز مختص کیے گئے تھے ان کے استعمال پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں اور کے پی اسمبلی کے علاوہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی اس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ان رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا کی ہیلتھ منسڑی کو ابتدائی فیز میں دس ارب روپے کا بجٹ دیا گیا تھا۔ آڈیٹر جنرل کی ایک رپورٹ کے مطابق اس میں دو ارب سے زائد کی بد عنوانی کی گئی ہے جو کہ اگر درست ہے تو یہ ایک سنگین جرم ہے کیونکہ یہ ایک مستند رپورٹ سے اٹھائی گئی بات ہے۔

 یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان دس ارب روپے کے علاوہ تقریباً چھ ارب روپے محکمہ ریلیف کو بھی جاری کیے گئے تھے۔ اس کی تفصیلات کسی کو نہیں بتائی جا رہی ہیں تاہم بعض حلقوں کے مطابق یہاں بھی قومی فنڈز کے ٖضیاع کی شکایات سامنے آئی ہیں جو کہ  پرچیزنگ سے متعلق ہے۔ وزیراعلےٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد سیف نے کرونا فنڈز سے متعلق ان ایشوز پر جو وضاحت پیش کی ہے وہ الزامات اور جاری کردہ رپورٹ کی اہمیت کے تناظر میں اطمینان بخش نہیں ہے۔ ان کا محض یہ کہنے سے دوسرے قائل نہیں ہوں گے کہ ہیلتھ ایمرجنسی قوانین کے تحت درکار تقاضے پورے کیے گئے ہیں۔  یہ معاملہ اب ایک غیر جانبدار انکوائری کا متقاضی ہے تاکہ حکومت کی پوزیشن واضح اور ساک بحال ہو سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے سسٹم کو شفاف بنایا جائے۔ بچوں کے متاثر ہونے کے خدشے کے پیش نظر تعلیمی اداروں کی بندش اور بعض دیگر پابندیوں کے اطلاق کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket