Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, April 25, 2024

پختونخواہ میں سینیٹ الیکشن اور پی ٹی آئی کی برتری

 

پختونخواہ میں سینیٹ الیکشن میں حکمران جماعت تحریک انصاف کو واضح برتری حاصل ہوگئی ہے جبکہ متحدہ اپوزیشن اپنے دعوؤں کے برعکس سرپرائز دینے میں ناکام دکھائی دی۔

 ایک سو پینتالیس (145) ارکان پر مشتمل پختونخواہ اسمبلی سے سینٹ کے لیے 23 امیدوار میدان میں تھے جن میں سے 12 نے سینیٹ کے لیے منتخب ہونا تھا حسب توقع تحریک انصاف نے 12 میں سے دس نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے نیا ریکارڈ بنایا تاہم اسکی اتحادی  پارٹی بی اے پی ( باپ) کے امیدوار تاج آفریدی بوجوہ ناکام ہوئے جن کو سترہ ووٹ ملے۔ پی ٹی آئی کے نومنتخب سینیٹرز میں شبلی فراز،ثانیہ نشتر،لیاقت ترکئی اور محسن عزیز بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف پی ڈی ایم، جماعت اسلامی کی حمایت اور 45 ارکان رکھنے کے باوجود محض دو سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور صرف جے یو آئی کے مولانا عطاء الرحمان، اے این پی کے ہدایت اللہ خان کامیاب ٹھہرے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جیسی بڑی پارٹیاں پہلی بار کے پی سے کوئی ایک بھی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔

شکست کھانے والوں میں اس پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر بھی شامل ہیں جن کو اپوزیشن کے 45 ارکان میں سے 34 ووٹ ملے اور غالبا” اسی کا نتیجہ ہے کہ پارٹی کے صوبائی صدر ایوب خان نے موقف اپنایاکہ اپوزیشن کے چھ سے آٹھ ووٹ سلپ  ہو چکے ہیں۔

فرحت اللہ بابر کےعلاوہ مسلم لیگ نون کے عباس آفریدی بھی خلاف توقع شکست  کھا گئےحالانکہ تاج آفریدی کی طرح ان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنے ذاتی اثر و رسوخ اور پیسے کے بل بوتے پرپختونخواہ میں سینیٹ الیکشن کامیاب ہو جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ اے این پی کے بعض ارکان نے بوجوہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے امیدواران کی بجائے بلوچستان عوامی پارٹی اور پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالے کیونکہ بی اے پی نے ایک معاہدہ کے تحت بلوچستان میں اے این پی کےامیدوار کو ووٹ دے کر کامیاب کرایا تاہم پارٹی کے رہنما اس الزام یا تاثر سے انکار کر رہے ہیں کہ ان کے بعض ووٹ پی ڈی ایم یا اپوزیشن کی بجائے کسی اورکو گئے ہیں۔

  سن 2018 کے تلخ تجربے کے بعد اب تحریک انصاف نے اپنے ممبران کو بکنے سے بچانے کی کامیاب حکمت عملی اپنائی جس کے نتیجے میں بعض شکایات اورالزامات کے باوجود حکمران جماعت اپنے تمام امیدواروں کو کامیاب کرانے کا مقصد پورا کر سکی اور اس سلسلے میں نتائج کے آنے کے بعد صوبائی اسمبلی ہال کے اندر باقاعدہ جشن بھی منایا گیا۔کامیابی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فرازاورصوبائی وزیر شوکت یوسف زئی نے اپوزیشن پر مبینہ ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو کامیاب بنانے کے لیے پیسے کا استعمال کیا گیا ہے جس کے باعث وہ اس نتیجے کو قبول کرنے کی بجائے چیلنج کریں گے۔

جب کہ وزیراعلی محمود خان نے دس امیدواروں کی کامیابی کو اپنے اور عمران خان پرارکان کا اعتماد قرار دے کر الزام لگایا کہ اپوزیشن نے ان کے ارکان کو خریدنے کی کوششیں کیں مگر ارکان نے بکنے سے انکار کر کے اپنے امیدواروں کو کامیاب کرایا۔

صوبائی حکومت کے لیے اپنے 100 کے لگ بھگ ارکان اسمبلی کو 2018 کے تلخ تجربے اور بدترین ہارس ٹریڈنگ سے بچانے کا ٹاسک ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ متحد گروپ اور بعض رہنماء ممبران اسمبلی ٹکٹوں کی تقسیم اور بعض دیگر معاملات پراپنی حکومت اور قیادت سے ناراض تھے تاہم  سخت مانیٹرنگ اور چیکنگ کے علاوہ بہترین لابنگ کے باعث ارکان اسمبلی کو ووٹ بیچنے سے بچایا گیا جس کے باعث وزیر اعلی ہاؤس کی پوزیشن مزید مضبوط اور محفوظ ہوگئی۔

پختونخواہ میں سینیٹ الیکشن کے تمام پروسیس کے دوران مختلف پارٹیوں نے جوطریقہ کار اور رویہ اپنایا عوامی سطح پر اس کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیااور شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ عوام اس عمل سے نہ صرف یہ کہ لاتعلق نظر آئے بلکہ سیاسی پارٹیوں کی بے اصولی اور قلا بازیوں نے اس تاثر کو ایک بار پھر تقویت دی کہ ان کی نظر میں اقتدار کا حصول ہی پہلی ترجیح ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket