Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, April 20, 2024

پاک افغان تعلقات

پاک افغان تعلقات، استحکام اور روابط پورے خطے کے لیے اہم ہے دونوں ممالک امن و امان کے معاملے میں اپنا کردارا دا کریں بدامنی دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے نیک شگون نہیں ،پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کریں بدامنی سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے جس کے برے نتائج ہوں گے انہوں نے کہا کہ مستقل اور پائیدار امن خطے کی سلامتی ‘ ترقی اورخوشحالی کے لیے مسائل کو افہام وتفہیم سے حل کرنےکی ضرورت ہےبارڈرٹریڈ سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے اس میں آسانی پیدا کی جائیں۔

پاکستان افغانستان سرحد پر واقع قبائلی ضلع کرم کے علاقے خرلاچی میں پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان دوبارہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے جس میں حکام کے مطابق ایک فوجی سپاہی جان سے گیا۔پارا چنار کے ضلعی ہیڈکواٹرز ہسپتال کے ایک اعلامیے کے مطابق پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان اتوار کی شب پونے دس بجے کے قریب خرلاچی کے مقام پر ایک جھڑپ ہوئی۔ تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ افغانستان کے صوبے پکتیا کے علاقے ڈنڈ پتن اور پاکستانی سرزمین کے اندر واقع باروکئی کے علاقے میں پیش آیا۔اس تصادم میں ہسپتال کے مطابق نو افراد مجموعی طور پر زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ان میں سات فوجی سپاہی اور دو عام شہری شامل ہیں۔ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے خرلاچی بارڈر پر افغان طالبان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے مابین فائرنگ کا تبادلہ کئی دنوں سے وقفے وقفے سے جاری ہے۔

کرم خرلاچی بارڈر پر گذشتہ کئی مہینوں سے یہ مسئلہ چلا آ رہا ہے اور اس کی وجہ سرحد کے دونوں جانب رہنے والے قبائل کے مابین زمینی تنازع بتایا جاتا ہے۔

پارا چنار کے مقامی صحافی ارشاد حسین طوری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اصل میں کرم کے بارڈر پر پاکستانی گاؤں خرلاچی اور بوڑکی گاؤں کے لوگوں کی کچھ زمینیں پاک افغان بارڈر پر باڑ لگنے کے بعد افغانستان کی طرف رہ گئی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’جب باڑ لگائی جا رہی تھی تو پاکستانی جانب پر موجود خرلاچی اور بوڑکی کے لوگوں نے حکومت کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ ہماری زمینیں افغانستان کی طرف پر رہ جائیں گی۔‘

ایسے مسائل کا فوری حل نہایت ضروری ہے تاکہ پاک-افغان بارڈر کو محفوظ طریقے سے تجارت اور دونوں طرف لوگوں کی آمد و رفت کے لیے کھلا رکھا جا سکے۔ یاد رہے کہ اس سال اپریل میں بھی پاکستان کے قبائلی اضلاع جنوبی و شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کی سکیورٹی فورسز پر حملے میں تیزی کے بعد پاک افغان سرحد پر حالات کشیدہ ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں انگور اڈہ کراسنگ پوائنٹ کو لوگوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔

جہاں تک ان واقعات کی وجوہات کا تعلق ہے تو ماہرین یہی سمجھتے ہیں کہ کچھ طاقتیں افغان طالبان اور پاکستانی فورسز کو آپس میں لڑوایا جائے۔ ان کاموں کے لیے کچھ پاک مخالف قوتیں افغانستان کی کمزور مالی حالت کا فائدہ اٹھا کر وہاں موجود پاکستان سے بھاگنے والے دہشت گردوں  کی بڑی تعداد کو از سر نو پاکستان کے خلاف ابھارا جا رہا ہے۔ دوسری جانب حآمد کرزئی اور اشرف غنی کی باقیات ہیں جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے کسی موقع کو جانے نہیں دیتے۔

دوسری جانب حالیہ واقعات کے بعد مشیران کی جانب سے کشیدگی دور کرنے کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی بارآور ثابت نہیں ہو رہیں۔ دونوں فریقین اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔

طالبان کی جانب سے 2021 میں کابل کا کنڑول حاصل کرنے کے بعد سے ہی یہ خدشہ موجود تھا کہ طالبان جو امریکہ کے انخلاء کو اپنی فتح قرار دے کر اقتدار میں آئے ہیں وہ پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعے کو دوبارہ اٹھائیں گے۔ جب طالبان نے پاک افغان سرحد پر لگی باڑ اکھاڑنے کا عمل شروع کیا تو یہ خدشات درست ثابت ہوئے۔ یاد رہے کہ افغانستان کا موقف ہے کہ پاک افغان سرحد اس طرح ہونی چاہیئے کہ مالاکنڈ ڈویژن کا پورا علاقہ افغانستان کا حصہ ہو۔ یہ موقف گو کہ تاریخی طور پر بین الاقوامی سطح پر درست نہیں ہے مگر طالبان ملا عمر کے زمانے سے ہی اس موقف پر قائم ہیں۔

دوسرا پاکستان کی جانب سے 11/9 کے بعد اپنائی گئی پالیسی نے پاکستان اور افغان طالبان میں دوریاں پیدا کر رکھی ہیں۔ افغانستان میں موجود بھارت و دیگر پاکستان مخالف قوتیں اس تناؤ کو برقرار رکھنے پر مصر ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان اس ساری صورتحال میں کیا کر سکتا ہے؟ اس سوال کا کوئی ایک جواب بدقسمتی سے موجود نہیں ہے۔ پاکستان کو کسی صورت افغانستان کے ساتھ کوئی مسلح جھگڑا نہیں کرنا مگر ساتھ ہی ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ افٖغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔ اس سلسلے میں پاکستان کو اپنی سفارت کاری کے ساتھ ساتھ دنیا پر واضح کرنا ہو گا کہ اپنی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کسی بھی حد تک جائے گا اور جو کوئی بھی پاکستان میں دہشت گرد ی میں ملوث ہو گا اس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket