Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, April 20, 2024

پاکستانی سیاست پر گہرے ہوتے نسلی و لسانی عصبیت کے سائے

  اپنی آزادی کے بعد سے ہی پاکستان اپنے کمزور سیاسی ڈھانچے کی بنا پر بہت سارے مسائل کا شکار ہے ۔بہت سارے مسائل کا شکار رہا ہے ان میں سے چند ایک ایسے ہیں جو کہ اس کمزور سیاسی ڈھانچے کی پیداوار ہیں جبکہ دیگر وہ ہیں جو کہ پاکستان بننے سے پہلے ہی اس خطے میں اپنا وجود رکھتے تھے مگر کمزور سیاسی ڈھانچے کی بدولت وہ مسائل گمبھیر سے گھمبیر تر ہوتے چلے گئے ۔

انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ سیاسی بنیادوں پر نسلی و لسانی عصبیت اور اس سے منسلک  تشدد  کا ہے ۔پاکستان میں کبھی پختونستان کا نعرہ بلند ہوا ، کبھی سندھو دیش کا ،کبھی مہاجر قوم نے اپنی آزادی کی آواز اٹھائیں تو کبھی بلوچستان میں شورش برپا ہوئی ۔ان تمام مسائل کے پیچھے جہاں پاکستان کے اندرونی سیاسی ڈھانچے کا ہاتھ ہے وہی بیرونی قوتوں کی مداخلت ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو 1950 کی دہائی میں شروع ہونے والی یہ نسلی و لسانی عصبیت 1970 کی دہائی تک مسلح جتھوں اور ان کے ریاست کے ساتھ تصادم کی صورت اختیار کر چکی تھی ۔

ریاست کو ان مسائل پر قابو پانے کے لیے اور ان جھتوں جنہیں پاکستان کے دشمن ممالک کی مدد حاصل رہی، کو کچلنے کے لئے ایک فوجی راستہ اختیار کرنا پڑا ۔کسی بھی ملک میں تہذیبی تفاوت کو اس ملک کی خوبصورتی اور مضبوطی سے تشبیہ دی جاتی ہے مگر پاکستان میں معاملہ اس کے بالکل برعکس نکلا کیونکہ یہاں بیشتر ایک دوسرے کے تمدن سے ناواقف  تھے اور نسلی و لسانی عصبیت کا شکار علاقوں کا ڈھنگ کا سماجی ڈھانچا قبائلی رسم و رواج کے ماتحت تھا۔

اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کس صوبہ خیبر پختونخوا ماضی میں نسلی و لسانی عصبیت کا بری طرح شکار رہا اور یہاں پختونستان کا نعرہ بلند ہوتا رہا مگرجب افغانستان کے حالات اور داخلی انتشار نے لوگوں کو ملک کے دیگر حصوں خصوصاً صوبہ سندھ اور کراچی کی جانب روزگار کی تلاش کیلئے روانہ کیا تو آہستہ آہستہ ایک نئی سماجی حقیقت نے جنم لیا اور پختونستان کا نعرہ دب کے رہ گیا اور اب  وہی قوم پرست جو نسلی و لسانی بنیاد پر  الگ ملک کا مطالبہ کر رہے تھے پاکستان کے مرکزی دھارے میں شامل ہو کر اپنے حقوق کے لیے پاکستان کے آئین کے تحت جدوجہد کر رہے ہیں۔آج کراچی میںپشاور سے زیادہ پشتون شہری آباد ہیں جو کہ کراچی اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔

اسی طرح ہمیں بلوچستان کی سیاست میں بھی اسی نسلی اور لسانی عصبیت کا رنگ والا دکھائی دیتا ہے مگر یہاں معاملہ اس لیے مختلف ہے ۔پاکستان کے بیرونی دشمن پاکستان کے بیرونی دشمن بلوچ جو کہ پاکستان کی آبادی کا صرف چار فیصد ہیں ، کے چند لوگوں کو گمراہ کر کے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور شورش برپا کرنے پر آمادہ کیے ہوئے ہیں ۔ بلوچستان کی عدم ترقی کی وجہ وہاں کا سرداری نظام  ہے  مزید یہ کہ صوبے کا بہت بڑا رقبہ ہے جہاں ایک چھوٹی سی آبادی دور دراز کے شہروں اور قصبوں میں پھیلی ہوئی ہے سوائے کوئٹہ کے کوئی بڑا شہر نہیں ہے ۔

اگر ہم صوبہ سندھ کی بات کریں تو اس وقت پاکستان کی سیاسی منظر نامے پر سب سے زیادہ مختلف نسل اور زبان کے لوگ کراچی میں آباد ہیں جن میں سندھی پختون بلوچ اور مہاجر وغیرہ شامل ہیں ۔یہ لوگ سندھی، اردو ،پشتون زبان بولتے ہیں ۔اسی وجہ سے صوبہ سندھ کی سیاست میں ہمیں نسلی و لسانی عصبیت کی جھلک سب سے زیادہ دکھائی دیتی ہے اور اکثر اوقات یہی عصبیت پر تشدد واقعات کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتی ہے ۔

جنہیں مختلف سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی ایجنڈے کے تحت مخصوص رنگ دینے سے گریز نہیں کرتیں۔حال ہی میں کراچی میں ایک ایسا ہی واقعہ رونما ہوا ۔جس میں ایک شخص کے قتل کی وجہ سے بہت سارے لوگوں وہ اذیت اٹھانا پڑی ۔مرنے والے کا تعلق پاک سرزمین پارٹی سے تھا جو کہ اپنے آپ کو مہاجر قوم کی نمائندہ پارٹی کہتی ہے جبکہ قتل کا الزام ایک پشتون باشندے پر ہے جو کہ ایک ریسٹورینٹ چلاتا ہے اس واقعے کے بعد دونوں جانب سے اس کو لسانی رنگ دیا گیا اور سندھی اور پشتون جتھوں نے ایک دوسرے کے روزگارجیسا کہ ڈھابے اور چائے کے کھوکھے وغیرہ پر حملے شروع کر دیئے ۔

ایسے موقع پر بدقسمتی سے ایسے موقع پر بجائے اس کے کہ سیاسی قیادت آگے آئے اور معاملے کو افہام و تفہیم اور سلیقے سے حل کرے ہر سیاسی جماعت اس واقعہ میں مزید شدت میں اضافہ کرتی ہے ۔اور اس سے قوم پرستوں کو پوری ریاست کے خلاف نفرت پھیلانے کا موقع مل جاتا ہے ایسی صورتحال میں امن و امان کے ذمہ دار ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جلد از جلد معاملے کو حتمی انجام تک پہنچا کر مجرم کو قرار واقعی سزا دلوائی مگر بدقسمتی سے پاکستان کی پولیس اور عدلیہ دونوں ہی اس معاملے میں مکمل کام ثابت نہیں ہے۔ پاکستان ماضی میں اپنے کم وسائل اور سلامتی کے بڑے منصوبوں کی بدولت سماجی دھارے میں موجود اس نسلی و لسانی عصبیت پر توجہ مرکوز نہیں کر سکا۔ پاکستان میں جہاں پولیس اور عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ملک کے آئین میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں کہ کسی بھی  سیاسی جماعت کی طرف سے سیاسی بنیادوں پر نسلی و لسانی  تشدد کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں کیونکہ ایسا کرنا ملک دشمنی کرنا ہے!

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket