Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, April 24, 2024

موسم سرما اور سیلاب متاثرین

پاکستان میں اس سال موسمی تبدیلیوں اور مون سون کی بارشوں کی وجہ سے تاریخی سیلاب آئے جن سے پورا ملک بالعموم اور صوبہ خیبر پختونخواہ بالخصوص متاثر ہوئے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس قسم کی قدرتی آفت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔صوبہ سندھ، پنجاب اورخیبر پختونخوا کے وسیع علاقوں میں سیلاب  کے ریلے  لوگوں کے گھر باراور انکی زندگی بھرکی کمائی سب کو بہا کر لے گئے۔

 موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی ان بے حال سیلاب متاثرین کی مشکلات میں بھی خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک طرف سیلاب متاثرین کومناسب رہائش، ادویات اور غذائی قلت جیسے مصائب کا سامنا ہے تو دوسری جانب شدید سردی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنا بھی ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ سردی کے شدید موسم میں بیماریوں اور طبی آفات ایک عام سی چیز ہے۔ مچھر اور دیگر موذی حشرات الارض بھی کم درجہ حرارت میں نمو پاتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ تو پہلے ہی ڈینگی کی خطرناک زد میں ہے۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ وہاں سے ابھی تک سیلابی پانی کا اخراج نہ ہونا ہے۔ یہ صورتحال سندھ اور پنجاب میں بہت شدت کے ساتھ لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے جبکہ خیبر پختونخواہ میں ذرائع آمدورفت اور سڑکوں کی مکمل بحالی نہ ہو پانا ان سیلاب متاثرین کے لیے اس شدید سرد موسم کی مشکلات کو دو چند کر رہا ہے۔

اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ خواتین و بچے ہیں۔ موسم سرما کے دوران سیلاب سے متاثرہ خواتین کے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ان میں سب سے نمایاں صحت کے مسائل ہیں۔  گزشتہ کئی مہینوں سے کھڑے پانی کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اسی طرح حاملہ خواتین اور نومولود بچے  سیلاب کے بعد موسم سرما میں سب سے زیادہ  متاثر ہو سکتے ہیں۔

دیگر بہت سے مسائل کی طرح ان لوگوں کے لیے بیت الخلا کی کمی سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے، جو سب کی صحت کے لیے خطرہ ہے۔ بہت ست متاثرین ابھی تک خیمے میں آباد ہیں  جہآں  خواتین اور مرد  ایک ساتھ رہتے ہیں۔ بیت الخلا نہ ہونے کی وجہ سے اس صورتحال میں خواتین کے لیے بہت دقت ہوتی ہے۔

اسی طرح حا ملہ خواتین کے لیے مناسب خوراک کی کمی ایک انتہائی گھمبیر مسئلہ ہے۔ خواتین حمل کے دوران مناسب خوراک نا ملنے کی وجہ سے  کمزوری کا شکار ہو رہی ہیں جو آگے چل کر ماں اور بچہ دونوں کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں عالمی اداروں نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہےاور حکومتوں سے اس جانب توجہ دینے کا کہا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے سیلاب متاثرین کے بارے میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لاکھوں حاملہ خواتین اور بچے خطرے میں ہیں جنہیں فوری طور پر امداد کی ضرورت ہےلیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔؟ ادویات کی قلت کی وجہ سے لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔حکومتی اور فلاہی اداروں نے کوشش تو کی لیکن آج بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں، جہاں نہ تو حکومتی نمائندگان اور نہ ہی فلاہی امدادی تنظیمیں پہنچ سکیں۔

پاکستان کے اس وقت کی سیاسی صورتحال بذات خود سیلاب متاثرین کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ جہاں ضرورت اس امر کی تھی کہ تمام سیاسی پارٹیاں ایک ساتھ ملکر اس صورتحال میں سیلاب متاثرین کے لیے سامنے آتیں، بدقسمتی سے اس اہم مسئلے پر بھی ایک دوسرے پر الزام تراشی، بہتان اور سیاسی مخالفت ہی دیکھنے کو ملی ہے۔ شروع کے دنوں میں تمام سیاسی جماعتوں نے اس اہم مسئلے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی مگر پھر سب کچھ پس منظر میں چلا گیا۔ اس صورتحال میں پاک فوج کے افسران و جوان دن رات ان متاثرین کے لیے بنیادی ضروریات زندگی کی ترسیل میں مصروف ہیں۔ میڈیا میں بھی اس سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں پر پہلے والا جوش و خروش نہیں دیکھنے کو ملتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں، صا حب حیثیت لوگ، اور فلاحی ادارے ملکر سیلاب متاثرین کے لیے مربوط منصوبہ بندی سے کام کریں تاکہ ان کو جلد از جلد اپنے گھروں میں باعزت طریقے سے پھر سے آباد کیا جا سکے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket