Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, April 25, 2024

سیاسی رسہ کشی اور بے بس قوم

 سیاسی رسہ کشی اور بے بس قوم

تحریر: شاہد فاروق

کل ہوٹل میں بیٹھا چائے پی رہا تھا تو ٹیبل پر لکھا تھا سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں میں نے ہوٹل کے چھوٹے سے پوچھا یہاں لوگ کھانا کھانے آتے ہیں یہاں سیاسی باتیں کون کرتا ہوگا؟….کہنے لگا “سرکار توانوں کی پتہ ساڈے سیاسی فیصلے ہوندے ای ہوٹلاں تے نیں، اسمبلی وچ تے بس دوسری پارٹی دے خلاف نعرے لگدے نیں” یہ بات سن کر میں پہلے تو حیران ہوا مگر پھر سوچا شاید پاکستان کے بحرانوں کی وجہ ہمارے سیاستدانوں کا یہی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری قانون سازی ہے مگر پاکستان کی پارلیمنٹ میں مخالفین پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے اور ایک دوسرے پر مختلف طریقوں سے الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے اور پھر عدم برداشت کی یہ صورتحال قومی مفادات کی فکر سے آزاد ہوتی ہوئی ذاتی حملوں اور غیر اخلاقی نعرے بازی تک جا پہنچتی ہے۔

اسمبلی میں نعرے بازی عدم برداشت کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ عدم برداشت اس وقت پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے کیونکہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں۔ یہ رویہ سیاست دانوں میں کچھ زیادہ ہی سرائیت کر چکا ہے کہ مخالف پارٹی کے حق میں کہے گئے تنقیدی الفاظ فورا مسترد کر دیئے جائے ہیں اور ناقدین کو مختلف القابات سے نوازا جاتا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ تمام سیاسی رہنما آپس میں دست وگریباں ہیں ان کی یہ لڑائی سیاسی کارکنوں پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کر رہی ہے کہ سیاسی ورکرز آنکھوں پر پارٹی سے عشق و عقیدت کی پٹی باندھے پسندیدہ رہنما کے حق میں قصیدے پڑھے جارہے ہیں۔ ہمارے ہاں رواج ہے کہ کوئی سیاستدان ووٹ لے کر حکومت میں آتا ہے تو اس کی جیت کا اعلان بعد میں ہوتا ہے پہلے مخالف پارٹی سے نتائج کو مسترد کرنے کی خبریں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اب تو ایسا لگتا ہے حکمرانی ان مفاد پرست سیاست دانوں کے درمیان رسہ کشی کا کھیل بنی ہوئی ہے۔ جو حکومت میں آتا ہے وہ گزشتہ حکومت پر تنقید کرتا ہے کہ جانے والی حکومت نے یہ کیا وہ کیا وغیرہ۔

پاکستان ایک جمہوری ملک ہے مگر بد قسمتی سے 75 سالوں میں کوئی بھی وزیر اعظم 5 سال کی آئینی مدت پوری نہیں کرسکا۔ سیاسی افراتفری کا خمیازہ پاکستانی عوام غربت اور مہنگائی کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ سنہ 2013 سے 2018 تک عمران خان اپوزیشن میں تھے انہیں الیکشن پر کئی تحفظات تھے ان تحفظات کو لے کر اسمبلی جانے کی بجائے وہ ڈی چوک چلے گئے جہاں 126 دن پر محیط دھرنے میں حکومت کے منڈیٹ کو جعلی اور دھاندلی زدہ قراردیا گیا مگر جب یہ بات بےنتیجہ ثابت ہوئی پانامہ اسکینڈل میں نواز شریف کو عدالت سے نااہل قراردلوا کر عمران خان کی انا کو تسکین پہنچی۔ 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان نے کامیابی حاصل کی مگر دوسری جماعتوں نے الیکشن کو دھاندلی زدہ قراردیا۔ یعنی جو لوگ پہلے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتےتھے اب وہی ووٹ کے تقدس کو پامال کرنے کی دوڑ میں لگ گئے۔ عمران خان پاکستانی عوام میں جتنا مقبول تھے، اتنا ہی سیاسی جماعتوں کو ناپسند تھے ۔ لہذا سیاسی جماعتوں کے گٹھ جوڑ نے عمران خان کو ایک ڈائری کے ساتھ گھر بھیج دیا۔ وزیر اعظم ہاؤس سے نکلنے کے بعد عمران خان نے عوام کی سپورٹ کے ساتھ سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا۔ جلسوں کی سیاست کا بازار پھر گرم ہوا اور ملک ایک بار پھر سے انتشار اور بدامنی کی لپیٹ میں چلا گیا۔ پی ڈی ایم کا عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کا مقصد عوام کو مہنگائی سے بچانا تھا۔ مگر مہنگائی کی شرح میں دوگنا اضافہ ہو گیا۔ المختصر حکمرانوں کی اس آپسی لڑائی میں عوام ہمیشہ کی طرح بھلی کا بکرا بنی۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس گئی۔ مگر سیاستدان کرسی کا مزا اور شہر اقتدار میں گھومنا چاہتے ہیں۔ اپنے ملک میں سیاسی عدم استحکام کے نقصانات پر بات کرتے ہوئے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جن ممالک میں سیاسی استحکام ہے وہاں معاشی حالات کیسے ہیں؟.

سیاسی جلسوں کی تقریروں میں ہم بے مثالیں تو بہت سی سنی ہیں مگر دو ممالک کی بات قلم کی نوک پر لاؤں گا۔ پہلا ملک پاکستان کا درینہ دوست چین ہے جس میں چند روز قبل شی جن پنگ مسلسل تیسری بار چائنہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ان سے پہلے ہوجن تاؤ تھے جو 10 سال کے لیے برسر اقتدار رہے۔ جیانگ زمن 27 مارچ 1993 سے 15 مارچ 2003 تک چین کی کمان کرنے میں کامیاب رہے۔ سیاسی استحکام کی بدولت چائنہ دنیا کی کامیاب ترین معیشت والے ممالک میں سے ایک بن گیا۔ چین پاکستان سے بعد میں آزاد ہوا اور آج پاکستان اپنی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے چائنہ پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ دوسری مثال ہمسایہ ملک بھارت ہے۔ بھارت میں اب تک 18 وزرا اعظم بنے جن میں گلزاریلال 2 بار وزیر اعظم کی کرسی پر صرف 13 دنوں کے لیے براجمان ہوئے پہلی بار، پہلے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی موت کے بعد اور دوسری بار لال بہادر شاستری کی موت کے بعد۔ دوسری طرف گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان نے 11 وزرا اعظم تبدیل کیے۔

سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے دوسرے ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ کاروباری حضرات ملک میں کاروبار بڑھانے کی بجائے ملک سے باہر سرمایہ کاری کر رہے ہیں. ملک کے معاشی حالات اور حکمرانوں کی ضد کے پیش نظر انتخابات ہو بھی جائیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہمارے حکمران ان نتائج کو مان لیں گے یا پھرسلسلہ الزام تراشی سے شروع ہو کر دھرنوں یا عدم اعتماد پر ختم ہو گا۔ الیکشن کے نتائج سننے کے بعد کا رویہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں بہت مختلف ہے بھارت میں الیکشن جیتنے والے کو پہلی مبارک مد مقابل امیدوار دیتا ہے مگر پاکستان میں سیاسی مخالف کی جیت کا جشن دھاندلی کے نعرے کا پٹاخہ پھوڑ کر منایا جاتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کا سب بڑا نقصان تو عوام کا حکومتوں سے بھروسہ اٹھ جانا ہے۔ لوگوں کے سماجی اورمعاشی لحاظ سے غیر محفوظ محسوس کرنے سے بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس بے چینی میں خود غرضی جنم لیتی ہے اور ملک کے فائدے پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے جس کا نقصان قوم کو کبھی معاشی بد حالی کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے تو کبھی معاشرے میں بڑھتے جرائم کی صورت میں۔ اس لیے پاکستان کے سیاستدانوں کو چاہیے کوئی بھی حکومت میں آئے اس کو کام کرنے دیں اگر وہ عوام کو سہولیات کی فراہمی میں ناکام ہونگے تو عوام ان کو خود ہی ریجیکٹ کر دے گی۔ سیاستدانوں کو ہوٹل کے چھوٹے کی بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اس سادہ سی بات کا حل نکالنا ہوگا وگرنہ حالات مزید بگڑ جائیں گے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket