Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, April 20, 2024

زبان سے لگائے گئے زخم

زبان سے لگائے گئے زخم
پاکستان کی تایخ گواہ ہے کہ اس مملکت خدادادکوجس کاجتنابس چلااس نے اتناہی لوٹا کھسوٹا اوراپناالوسیدھاکرکے چلتابناحالیہ عرصے میں عمران خان ایک ایسالیڈرملاجس نے قوم کوایک نیاولولہ اورجوش دیااوراسکی باتوں سے متاثرہوکرلوگ جوق درجوق اسکے ساتھ شامل ہوگئے مگررواں مہینے وقوع پذیرہونے والے واقعات نے ثابت کردیاکہ وہ ایک مصنوعی لیڈرتھے، بصیرت سے محرومی کیساتھ ساتھ بصارت سے محروم تھے، حکمت، تدبراوردانشمندی چھوکربھی نہیں گزری مگرخود کو سب سے بڑا دانا سمجھ رہے تھے، وہ نہ صرف کوتاہ فہم تھے بلکہ اب بھی ہیں مگرتھے کا صیغہ اس لئے استعمال کرناپڑاکہ شائداب وہ پاکستانی سیاست کاقصہء پارینہ بن چکے ہیں انکی طرزِسیاست نے انہیں اس مقام تک پہنچادیاہے کہ اب”ساراپِنڈ بھی مرجائے میراثی کے بچے نے نمبردارنہیں بننا“۔ عمران خان جوکچھ ہی عرصہ قبل پاکستان کے مقبول لیڈرمانے جاتے تھے کئی سروے انکے حق میں آئے لیک آڈیوزکے مطابق مبینہ طورپرلوگ صرف ان سے ملنے کیلئے ایک کروڑروپے دھان کردیتے تھے،انکی پارٹی ٹکٹس میں خریدوفروخت کے ذریعے اربوں روپے کاروبارہوا،مگرخداکاغضب متوجہ ہوتو”چیونٹی کے پرنکل آتے ہیں یاگیدڑکی موت آتی ہے تووہ شہرکارخ کرلیتاہے“اسی طرح عمران خان نے مقبولیت کے زعم میں جلدبازی کے تحت ایسے اقدامات لئے جس سے آج وہ نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں کچھ ہی عرصہ قبل”چوروں سے مذاکرات نہیں کرو ں گا“کی گردان کرنے والے آج”کوئی مذاکرات پر تیارنہیں تومیں کیاکروں“ تک آپہنچے ہیں تواس میں قصورکسی اور کانہیں ان کااپناہے۔انکے سیاسی مخالفین نے توانہیں اقتدارسے ہٹاکرزیادہ طاقتوربنادیاوہ توانکے ٹکرکے رہے نہیں مگرخان صاحب نے انہیں دوبارہ اٹھنے اورخودکومنظرسے ہٹوانے میں بھرپورتعاون کیا۔ اقتدارسے محرومی کے بعداگروہ صرف اپنی زبان کولگام دیتے توبہت سی مصیبتوں سے محفوظ رہ سکتے تھے مگروہ سمجھتے تھے کہ جیسے زبان کے استعمال سے فوج کوخاموش کرایا،سیاسی مخالفین کوزیرکیا،زیروسے ہیروتک کاسفرکیااسی طرح زبان کے زیادہ استعمال سے الیکشن کروادینگے، اوران میں دوتہائی اکثریت حاصل کرکے اقتدارکی سنگھاسن پربراجمان ہوجائینگے،اسکے بعدپارلیمنٹ کوربڑسٹیمپ بناکرطاقتوراداروں سے پنجہ آزمائی کرینگے،اپنے ہردشمن کوچن چن کرماریں گے اورنیروبن کرچین کی بانسری بجائیں گے۔ مگرجیسے جیسے وقت گزرتارہاانکی فرسٹریشن میں اضافہ ہوتاچلاگیاانہوں نے زبان کابے دریغ استعمال جاری رکھابلکہ اس میں دن بدن شدت پیداکرتے رہے جس کاشدیدنقصان یہ ہواکہ انکے فالوورزمرنے مارنے پرتل گئے۔انہوں نے وزیرآبادواقعے کوکچھ ایسارنگ دیاجیسے انہیں حکومت اورفوج نے مروانے کی کوشش کی ہوحالانکہ اس واقعے کے شواہداسکے برعکس تھے۔لاہوراوراسلام آبادکی عدالتوں میں پیشی کے دورا ن ہنگامہ آرائی اورانہیں ملنے والی ضمانتوں اورخصوصی رعایتوں نے ان کادماغ ساتویں آسمان پرپہنچادیاانہوں نے اپنے کارکنوں کے ذہن میں بٹھادیاکہ انہیں جب بھی گرفتارکیاجائے گااس گرفتاری میں فوج کاہاتھ ہوگا۔ اب توخیرواقعات وشواہداس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ توڑپھوڑ اورتخریب کاری منصوبہ بندی کے تحت کی گئی ہے لیکن اگراسکی منصوبہ بندی نہ بھی کی گئی ہوتی توعمران خان کے نفرت انگیز خطابات ان ہنگاموں کیلئے کافی تھے۔ان کاخیال یہ رہاہوگاکہ فوجی تنصیبات اورنجی وقومی املاک پرحملوں سے فوج ڈر جائیگی اوروہ حکومت پردباؤڈالے گی کہ جلدازجلدانتخابات کروائے جائیں تاکہ عمران خان کوحکومت سونپی جاسکے۔ مگریہاں انہوں نے فاش غلطی یہ کی کہ پاکستان کوشام،اعراق اورلیبیاسمجھ لیا۔ یاشائدوہ طیب اردگان طرزپرفوج کے خلاف بغاوت برپاکرنے کے خواہشمند تھے تاکہ وہ طیب اردگان بن کرتاحیات حکومت کرسکیں۔ مگراے بساآرزوکہ خاک شد۔ پاکستانی فوج جوکہ دنیاکی چوتھی بڑی فوج ہے اورجس سے اٹھائیس لاکھ فوج کاحامل ہمسایہ ملک بچ کے رہتاہے وہ دوچارہزارشرپسندوں سے کیونکرمرعوب ہوسکتی ہے؟ جب ریاست حرکت میں آئی اور9مئی کے شرپسندوں کوسزادینے کافیصلہ ہواتوانکے کارکن جوشدت پسندی میں اپناثانی نہیں رکھتے ہلکاسادباؤبھی برداشت نہ کرسکے اورانکی پارٹی تنکوں کی طرح بکھرناشروع ہوگئی۔ عمران خان اگرسیاستدان ہوتے تویوں اپنی بنی بنائی پارٹی کوریاست سے ٹکرانے کی راہ پرنہ ڈالتے چونکہ وہ شروع سے سیاست اورحکومت دونوں کوکرکٹ میچ سمجھتے ہیں اس لئے بولڈفیصلے لیتے ہیں انہیں اتنانہیں معلوم کہ کرکٹ میں بولڈ فیصلہ لیکرآپ زیادہ سے زیادہ ایک کرکٹ میچ ہارجاتے ہیں مگرسیاست اورحکومت میں بولڈ فیصلہ لیکرآپ اپنی پارٹی کوٹائی ٹینک بناکرڈبودیتے ہیں وہ اب اپناٹائی ٹینک خودڈبوچکے ہیں انکے گن گانے والے ترجمان علیحدگی اختیارکررہے ہیں وہ زمان پارک میں بیٹھ کراپنے آشیانے کے تنکے بکھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اورانکے پاس کڑھنے سڑنے کے سواکوئی چارہ نہیں اسے مکافات عمل بھی کہاجاسکتاہے اوراپنے ہاتھوں سے خودکوبربادکرنابھی کہہ سکتے ہیں۔خان صاحب گرفتارہوتے توکونسی قیامت آنی تھی ہفتے عشرے میں انہیں ضمانت مل جاتی اوربقول انکے لاکھوں لوگ ان کااستقبال کرتے۔ مگرانہوں نے گرفتاری کواپنی توہین سمجھااورریاست سے ٹکرانے کاغلط فیصلہ کیاجوانکے گلے کاطوق بن چکاہے جس تیزی سے انکی پارٹی ٹوٹ اوربکھر رہی ہے اس سے تویہی لگ رہاہے کہ آئندہ انتخابات میں انہیں امیدوارملنا مشکل ہوجائیگایعنی اب وہ واپس فروری مارچ 2022ء میں پہنچ چکے ہیں دسمبر2021ء خیبرپختونخوامیں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کیلئے بلے کے نشان پرکوئی امیدواربننے کوتیارنہیں تھایہی وجہ تھی کہ باقی تمام جماعتوں نے ویلیج اورنیبرہوڈکونسلزکیلئے پارٹی ٹکٹس جاری کئے مگرتحریک انصاف کے عہدیداروں تک نے آزادحیثیت سے حصہ لیا۔ تحریک انصاف اورعمران کے عروج وزوال کی داستان پاکستا نی تاریخ کی انوکھی داستان نہ سہی مگرعبرت ناک ضرورہے اوریہ سب زبان کے دریغ استعمال کانتیجہ ہے انہوں نے اپنی زبان سے لوگوں کے دلوں پر جوزخم لگائے ہیں ان کامندمل ہوناممکن نہیں۔اسی لئے توکہتے ہیں تلوارکے زخم بھرجاتے ہیں مگرزبان سے لگائے گئے زخم کبھی نہیں بھرتے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket