Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, March 29, 2024

دو ہزار اکیس میں جو ہم سے بچھڑ گئے

تحریر کریم اللہ

ہر گزرا ہوا سال اپنے ساتھ زندگی  کے نشیب و فراز کی مختلف داستانیں لے کر جاتا ہے۔ سال دو ہزار اکیس بھی اپنے ساتھ کچھ ایسی اہم شخصیات رخصت کر چکا  جن کے نام  رہتی دنیا تک سنہرے الفاظ میں لکھے جائینگے۔ ان شخصیات میں  سیاسی ، مذہبی اور فنکار شامل ہیں۔

:رحیم اللہ یوسفزئی

دلیر عالمی شہرت یافتہ صحافی رحیم اللہ یوسفزئی 10 ستمبر 1956 کو مردان کے ایک نواحی گاؤں کاٹلنگ تحصیل میں پیدا ہوۓ۔ انہوں نے ابتدایٔ تعلیم اپنے گاؤں کے ایک سرکاری سکول سے حاصل کی۔ جب کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی ڈگری کراچی کے ایک آرمی پبلک سکول سے حاصل کی۔

تعلیم سے فراغت کے بعد صحافت کے شعبے سے منسلک رہے۔ رحیم اللہ یوسفزئی افغان امور کے ماہر اور مُلا عمر کا انٹرویو کرنے والے پہلے قد آور پاکستانی صحافی تھے۔ رحیم اللہ یوسفزئی کے کلاس فیلوز میں فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اشفاق کیانی نمایاں رہے۔ سرطان جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا رحیم اللہ یوسفزئی 67 سال کی عمر میں 9 ستمبر 2021 کو اس دار فانی سے رخلت کر گئے۔ رحیم اللہ یوسفزئی نے اسامہ بن لادن کے انٹرویو کے بعد کافی شہرت حاصل کی تھی۔

صحافتی میدان میں رحیم اللہ یوسفزئی کی خدمات سب کے سامنے ہیں۔ صحافتی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے رحیم اللہ یوسفزئی کو 2004 میں تمغہِ اِمتیاز اور 2001 میں ستارہِ امتیاز سے نوازہ تھا۔

سیاسی رہنماوں کی اگر بات کی جائے تو اس سال بھی بہت سے نامور سیاستدان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس فانی دنیا سے چلے گئے۔

:رحیم داد خان

رحیم داد خان جون 1943 کو ہاتھیان میں پیدا ہوے۔ انہوں نے ابتدائ تعلیم اپنے آبائی گاؤں ہاتھیان سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان لونڈخوڑ کے گورنمنٹ سکول  سے پاس کیا۔ خان صاحب 1967 ابتدا سے پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے۔ پیپلز پارٹی میں اِن کا شمار  اُن پارٹی اراکین میں ہوتا تھا۔ جو ذولفقار علی بھٹو کے بہت قریب تھے۔

پہلا الیکشن بھی پیپلز پارٹی کے سیٹ سے 1977 میں 27 سال کی عمر میں لڑا تھا اور کامیاب بھی ہوئے۔ اور صوبائی ڈپٹی سپیکر متخب ہوئے۔ رحیم داد خان نے سیاسی کیریٔیر  میں بہت مشکلات کا سامنا کیا تھا۔ ضیاء کے دور حکومت میں کئ بار جیل بھی گئے تھے لیکن اپنے نظریۓ سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہے۔ آپ وفاقی سینئر  وزیر کے منصب پر بھی فائز رہے۔

مہنگائ، بیروزگاری کے خاتمے کے لئے اُنہوں نے اپنے علاقے کے یوتھ کو نہ صرف سپورٹ کیا بلکہ بہت بڑے پیمانے پر بھرتیاں بھی کروائیں۔ اپ انتہائ نرم میزاج ، خوش گفتار ، اصول پسند اور عاجزانہ طبیعت کے مالک تھے۔رحیم داد خان کی طبیعت خراب ہونے کی بعد ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ 13 ستمبر 2021 کو انتقال کر گئے۔

:عمر شریف

عمر شریف کا اصل نام محمّد عمر تھا پاکستانی مشہور تھیٹر، اسٹیج ، فلم اور ٹی وی میں کام کرتے تھے۔ اسٹیج ڈرامے ان کی شہرت کی وجہ بنے۔ اداکاری کی دنیا میں وہ  عمر شریف کے نام سے جانے جاتے تھے۔عمر شریف 19 اپریل 1955 کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں پیدا ہوئے۔ عمر شریف کی زندگی کی اگر بات کی جائے تو زندگی کی آخری ایام تک لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے والے لیجنڈ اداکار تھے۔

کیرئیر کا اغاز 1974 میں 14 سال کی عمر میں اسٹیج اداکاری سے کیا۔ 1980 میں پہلی بار انہوں نے آڈیو کیسٹ سے اپنے ڈرامے ریلیز کیۓ۔انہوں نے کامیڈی کا جو منفرد ٹرینڈ متعارف کرایا۔ اس میں عوامی لہجہ انداز اور روز مرہ کے واقعات کا مزاحیہ تجزیہ شامل رہا۔

اپنی اداکاری کی وجہ سے نہ صرف پاکستان میں مقبولیت حاصل کی بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی ہمیشہ ٹاپ سرخیوں میں اپنی جگہ بنائے رکھی۔ پڑوسی ملک میں اپنے فن کےایسے جوہر دیکھائے کہ بھارت والے بھی عمر شریف کی اداکاری دیکھ کے دیوانے ہو گئے۔عمر شریف کی خدمات کے عوض انھیں “نگار ایوارڈ” اور تمغہِ امتیاز سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

زندگی کی اخری دنوں میں طبیعت ناساز ہوتے ہی عمر شریف کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ جہاں انکا علاج صحیح طورپر ممکن نہیں تھا۔ اس لئے حکومت نے 28 ستمبر 2021 کو ایئرایمبولینس کے زریعے عمر شریف کو امریکا روانہ کیا۔ وہاں انکا علاج کافی ٹائم تک جاری رہا لیکن طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے عمر شریف 2 اکتوبر 2021 کو 66 سال کے عمر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمیں الوداع کہہ کر چلے گئے۔

:دلیپ کمار

دلیپ کمار کا پیدائشی نام محمّد یوسف تھا۔ 11 دسمبر 1922 کو پشاور کے محلہ خداداد (قصہ خوانی بازار ) میں پیدا ہوئے۔

اپنے اہل خانہ کے ہمراہ 1935 کو کاروبار کے سلسلے میں ممبئی منتقل ہوۓ۔ شروع میں یوسف خان پھولوں کے سوداگر تھے۔ اس کے بعد دلیپ کمار نے بالی وڈ فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ پہلی فلم “جوار بھاٹا” میں ہیرو کے رول کے لئے کاسٹ کیا گیا۔ اس کے بعد بالی وڈ انڈسٹری میں اپنے قدم جمائے رکھے۔ ایک کے بعد ایک ہٹ فلم دیتے گئے۔ جس میں آن ، دیوداس ، کرما ، سوداگر،  جیسی ہٹ فلموں میں کام کیا۔ جس کی وجہ سے دلیپ کمار کو شہنشاہِ جذبات کا خطاب دیا گیا۔ صلاحیتوں سے بھر پور دلیپ کمار کو جس رول کے لئے کاسٹ کیا جاتا تھا ہر رول بخوبی نبھانا جانتے تھے۔ جذباتی کردار کے ساتھ ساتھ سنجیدہ اور لوگوں کو ہنسانے کا گُر جانتے تھے۔ کامیڈی فلموں میں کام کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ لوگوں کو ہنسانے کا فن بھی جانتے تھے۔

بالی ووڈ میں دلیپ کمار کی ایکٹنگ کے چرچے تو شروع دن سے تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی ایکٹنگ سے گوروں کو بھی گروویدہ بنایا تھا۔ ان کی وجیہہ شخیت کو دیکھ کر برطانوی اداکار ڈیوڈلین نے انہیں ” لارنس آف عریبیہ”میں ایک رول کے لئے پیشکش کی تھی لیکن دلیپ کمار نے اسے ٹھکرایا دیا تھا۔

سن 1998میں فلم “قلعہ” میں کام کرنے کے بعد فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی ازدوجی زندگی کو ترجیح دی۔ اپنی اہلیہ سایٔرہ بانوکے ساتھ شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت کرتے تھے۔ بالی وڈ فلم سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد بھی اُنکی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔

اپنی اداکاری کی وجہ سے جہاں وہ پوری دنیا میں مشہور تھے۔وہاں انہوں نے بہت سے اعزاز بھی اپنے نام کئے تھے۔ انڈین فلم کا سب سے بڑا اعزاز ” داد صاحب پھالکے” ایوارڈ بھی دیا گیا۔ حکومت پاکستان کی طرف سے  1998 میں انکو پاکستان کے سب سے بڑے سیویلین اعزاز “نشان پاکستان” سے بھی نوازا گیا۔بھارت کا دوسرا سب سے بڑا شہری اعزاز 2015 میں “پدم و بھوشن” سے نوازا گیا۔

کینسر جیسے لا علاج مرض میں مبتلا شہنشاہِ بالی ووڈ دلیپ کمار 7 جولائی 2021 کو 98 برس میں وفات پاگئے۔انکی آخری آرام گاہ ممبئی کے مشہور علاقہ سانتا کروز کے جوہو قبرستان میں ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket