Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Tuesday, April 23, 2024

خیبر پختون خوا میں سیکیورٹی کی صورتحال اور سیاسی ڈرامہ بازیاں

خیبر پختون خوا میں سیکیورٹی کی صورتحال اور سیاسی ڈرامہ بازیاں

عقیل یوسفزئی

وزیردفاع خواجہ محمد آصف کے مطابق گزشتہ 3 ماہ کے دوران کاونٹر ٹیررازم کی کوششوں، حملوں اور کارروائیوں کے دوران پاک فوج کے 17 افسران سمیت کل 53 سیکورٹی اہلکار شہید ہوگئے ہیں اور قربانیوں کا یہ سلسلہ جاری ہے تاہم اس قسم کی قربانیوں اور چینلز کے باوجود بعض مایوس سیاستدان نہ صرف یہ کہ اداروں کو بدنام کرکے مشکوک بنانے پر تلے ہوئے ہیں بلکہ وہ ملک کو درپیش مشکلات کا ادراک بھی نہیں رکھتے اور سیاسی عدم استحکام کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. انہوں نے کہا کہ سوات سمیت خیبر پختون خوا میں سیکیورٹی کی صورتحال پر سول اور ملٹری حکام کی کڑی نظر ہے ابھی سوات میں ملٹری آپریشن کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حالات  بگڑنے سے قبل کنٹرول کئے گئے ہیں۔

دریں اثناء تحریک طالبان پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے رواں مہینے یعنی اکتوبر کے 15 دنوں میں 20 حملے کئے ہیں جن میں خیبر پختون خوا میں ہونے والے 18 حملے شامل ہیں. اعلامیہ کے مطابق پختون خوا کے تقریباً ایک درجن اضلاع میں کارروائیاں کی گئی ہیں. اسی اعلامیہ کے مطابق ماہ ستمبر میں بھی انہوں نے 15 حملے کرائے تھے.
اگر اس صورت حال کا تجزیہ کیا جائے تو ثابت یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ہی کو سب سے زیادہ جانی نقصان پہنچایا گیا ہے حالانکہ ان اعداد و شمار میں پولیس فورس کے شہداء شامل نہیں ہیں جن کو گزشتہ چار پانچ مہینوں کے دوران روزانہ کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں کا مرکز خیبر پختون خواہ رہا ہے. ایک  اورنکتہ بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ اس متوقع لہر میں جو سویلین شھید یا زخمی کئے گئے ہیں ان میں بھی اکثریت ریاست کے ان حامیوں کی ہے جو کہ دہشت گردی کی مخالفت کرتے رہے ہیں. اس کے باوجود بعض سیاسی حلقے ریاستی اداروں پر تنقید سے باز نہیں آتے اور امن کے نام پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کررہے ہیں حالانکہ حالات اتحاد اور یکجہتی کا تقاضا کررہے ہیں.

صوبہ پختون خوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جو کہ اچھی بات ہے اور ریاستی ادارے ان مظاہروں کو تحفظ بھی دے رہے ہیں تاہم ان مظاہروں میں بعض غیر حقیقت پسندانہ اور یکطرفہ موقف، نعروں سے امن سے متعلق اس پیغام کو نقصان پہنچایا جارہا ہے جس کے حصول کیلئے سب کو مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

دوسری طرف عمران خان اور ان کے ہم خیال حکومتی سسٹم کے شئر ہولڈر ہوکر بھی بدگمانی پھیلانے میں مصروف عمل ہیں اور وہ اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ کم از کم پختون خواہ میں امن و امان کی ذمہ داری بنیادی طور پر ان کی حکومت ہی پر عائد ہوتی ہے.
عمران خان نے گزشتہ روز اپنے مبہم بیانیہ کی بنیاد پر ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد پھر سے ملک میں نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کرکے ایسا نہ ہونے کی صورت میں مارچ کرنے کی روایتی دھمکی دے دی ہے حالانکہ ان کو یہ بات معلوم ہے کہ ملک اس سٹیج پر سیکیورٹی اور اکانومی کے چیلنجز کے باعث ملک گیر انتخابات کا متحمل نہیں ہوسکتا. اوپر سے ملک کے چاروں صوبوں کے 100 سے زائد اضلاع کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا بھی سامنا ہے.
جہاں تک ان کی اس خوش فہمی کا تعلق ہے کہ ضمنی انتخابات میں ان کو کوئی بڑی کامیابی ملی ہے تو ان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ قومی اسمبلی کی اپنی پرانی جیتی ہوئی 2 سیٹیں گنوا بیٹھے ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی بھی غالباً 2 سیٹیں ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں. جن سیٹوں پر وہ کامیاب ہوئے ہیں وہاں بھی 2018 کے نتائج کے مقابلے میں ان کے ووٹ بہت کم ہوگئے ہیں. دو بڑی پارٹیوں یعنی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی مقبول قیادت نے اس مہم میں حصہ نہیں لیا جبکہ عمران خان نے 60 جلسے کئے اس لیے لازمی ہے کہ وہ بعض خوش فہمیاں ختم کرکے پاکستان کے مفاد میں محاذ آرائی کی سیاست سے گریز کرکے ریاست کے ساتھ تعاون کریں.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket