Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, April 24, 2024

حملوں میں اضافے کا پس منظر اور ٹی ٹی پی کی پروپیگنڈا مشینری

حملوں میں اضافے کا پس منظر اور ٹی ٹی پی کی پروپیگنڈا مشینری

عقیل یوسفزئی

یہ بات سب کو معلوم تھی کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام اور اس سے وابستہ چند نظریاتی امور کے باعث پاکستان کے لیے سیکیورٹی کے نئے چیلنجز پیدا ہوں گے. حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں پاکستانی شدت پسند گروپوں کے تقریباً 6000 جنگجوؤں کو افغانستان میں پناہ دی گئی تھی جس کے باعث یقینی خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اگر ان عناصر کے ساتھ مفاہمتی عمل کے ذریعے ڈیلنگ نہیں کی گئی تو یہ پاکستان پر پھر سے حملہ آور ہوں گے اور ایسا ہی ہوا.
ایک رپورٹ کے مطابق اگست 2021 سے اگست 2022 تک خیبر پختون خوا کو 165 حملوں کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں 290 افراد شہید ہوئے. اب کی بار ریکارڈ تعداد میں پولیس فورس کو نشانہ بنایا گیا تاکہ اس فرنٹ لائن فورس کو دباؤ کا شکار بنایا جائے.
دوسری طرف وزیر دفاع کے مطابق رواں سال 20 افسران سمیت پاک فوج کے تقریباً 75 اہلکاروں کو مختلف کارروائیوں کے دوران شہید کیا گیا.
گزشتہ روز سیکورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے تقریباً نصف درجن مطلوب دہشت گردوں کو نشانہ بنایا تو اگلے روز لکی مروت میں پولیس کی ایک کانوائے پر حملہ کرکے چھ اہلکاروں کو شہید کر دیا گیا. اسی روز دو اہلکاروں کو باجوڑ میں بھی نشانہ بنایا گیا.
حیرت کی بات یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے اسی دن ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ان کے اہلکاروں کو پاکستان کی فورسز نے نہیں بلکہ امریکی ڈرون نے نشانہ بنایا تھا. حالانکہ مقامی افراد اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ ہلاکتیں فورسز کی کارروائی کے نتیجے میں ہوئی تھیں. تحریک طالبان پاکستان کے اس دعوے کو ان کے پروپیگنڈا ہتھکنڈے کا نام دیا جاسکتا ہے تاکہ اس بیانیہ کے ذریعے پاک امریکہ تعلقات میں واقع ہونیوالی مثبت تبدیلیوں کو مشکوک بنایا جائے اور اس کے ساتھ عوام اور اپنے حامیوں کے ذہن میں یہ بات بٹھائی جائے کہ امریکہ نہ صرف پھر سے ڈرون حملے کرنے لگا ہے بلکہ پاکستان اور امریکہ خطے میں کسی اور ایجنڈا کے تحت کوئی گیم کھیل رہے ہیں. یہ افغانستان کی حکومت اور پاکستان کے درمیان بدگمانی پیدا کرنے کی کوشش بھی قرار دی جاسکتی ہے کیونکہ اس سے قبل جب کابل میں القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کو نشانہ بنایا گیا تب بھی یہ پروپیگنڈا کیا گیا تھا کہ اس میں پاکستان سے اڑنے والا ڈرون استعمال کیا گیا ہے. اس بیانیہ کا مقصد پاکستان کے کردار کو مشکوک بنانا تھا.
اب کی بار افغانستان سے اس قسم کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے ایک سخت گیر گروپ (خراسانی گروپ) اور القاعدہ، داعش کے درمیان کوئی ڈیل ہوئی ہے جس میں طے پایا ہے کہ دونوں ممالک میں بعض مشترکہ کارروائیوں کا آغاز کیا جائے گا اور یہ کہ ایکدوسرے کو بوقت ضرورت نہ صرف افرادی قوت مہیا کی جائے گی بلکہ تکنیکی معاونت بھی کی جائے گی اور تیسری بات یہ کہ پروپیگنڈا کے ذریعے اس قسم کی اطلاعات اور معلومات کو فروغ دیا جائے گا جس سے پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جاسکتے ہوں.
یہ بہت پیچیدہ اور خطرناک لایحہ عمل ہے اس لیے اس پر نہ صرف کڑی نظر رکھنی چاہیے بلکہ جو ممالک اور پس پردہ قوتیں اس پلاننگ سے فائدہ اٹھاسکتی ہیں ان کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ روس اور یوکرائن کی جنگ سے پیدا شدہ صورتحال اور سی پیک سے متعلق چین، پاکستان کی نئی انڈرسٹینڈنگ کے تناظر میں عالمی اور علاقائی پراکسیز کے لیے ایک نیا ماحول بن گیا ہے. حالیہ حملوں، صف بندی، پروپیگنڈا اور بعض دیگر سرگرمیوں کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے لازمی ہے معاملات سے نمٹنے کا کام صرف عسکری قیادت پر نہیں چھوڑا جائے بلکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور سیاسی قیادت بھی ممکنہ چیلنجز سے نمٹنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کریں.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket