ضلع کرک کے دور افتادہ علاقے ٹیری میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہندو برادری کی ایک سمادھی کو آگ لگانے اور مسمار کرنے کے واقعے کا حکومت نے سخت نوٹس لیسے ہوئے تقریبا 50 لوگوں کو گرفتار کر لیا ہےجبکہ حکومت خیبر پختونخواہ نے سمادھی کو از سر نو بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ زمین کے اس تنازعے کا بھی فوری حل نکالا جائے جس کی آڑ میں چند شرپسند اور مفاد پرست عناصر نے صوبہ پختونخواہ کی مثالی روایات کو پامال کرتے ہوئے اس کارروائی میں حصہ لیا۔
مشیر اطلاعات کامران بنگش اور ائی جی پختونخواہ ثناء اللہ عباسی سمیت مختلف سرکاری عہدیداروں نے متاثرہ سمادھی کا داروہ کر کے صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب جسٹس گلزار احمد نے بھی اس واقعے کا از خود نوٹس لیکرمتعلقہ حکام کو 5 جنوری تک سپریم کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دے دیا ہے۔ بعض حلقے اپنی لاعلمی کے باعث یہ تاثر دے رہے ہیں کہ گویا یہاں کوئی باقاعدہ کوئی مندر تھا یا یہاں کوئی ہندو اقلیتی آبادی تھی جس کو مذہبی منافرت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اصل صورتحال یہ ہے کہ یہ جگہ شری پرم ہنس مہاراج نامی ایک قابل ذکر ہندو پنڈت یا گرو کی سمادھی تھی جہاں نا کے پیرو وکار دوسرے علاقوں خصوصا سندھ اور پنجاب سے کبھی کبھار زیارت کے لیے آیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں نہ تو کوئی ناقاعدہ عبادت گاہ تھی نہ ہی اس علاقے میں مقامی ہندوؤں کی کوئی آبادی ہے۔ اس جگہ کے آس پاس کی بعض جائیدادیں ماضی میں اس مقصد کے تحت خریدتے رہے ہیں کہ وہ اس عمارت یا سمادھی کو توسیع دے کر اپنے گرو کی یادگار کو محفوظ بنائیں۔
بعض مقامی اور نواحی علاقوں کے بعض عناصر کی کوشش رہی ہے کہ یہ زمینیں ہتھیانے کے لیے مذہبی منافرت کا سہارا لے کت مقامی افراد کو استعمال کیا جائے اور اس قسم کی کوشیشیں وہ ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں۔ 30 دسمبر 2020ء کو انہوں نے سادہ لوح شہریوں کو ورغلاکر سمادھی کو آگ لگائی اور اس کی محدود عمارت کو مسمار کرنے کی عملی کوشش کی۔ اس عمل کی نہ صرف یہ کہ تمام مذہی اور سیاسی قائدین اور عوامی حلقوں نے کھل کر مذمت کی بلکہ حکومت نے فوری ایکشن لیکر شر پسند عناصر سمیت اس کارروائی میں حصہ لینے والے تقریبا 50 افراد کو گرفتار کر لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک واضح پالیسی بیان جاری کیا گیا ہے کہ ذمہ داران کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی اور سمادھی کی ازسر نو تعمیر کے بعد اس کو سرکاری تحفظ دیا جائے گا۔ دوسرے طرف سابق ایم این اے اور جی یو آئی (س) کے رہنما شاہ عبد العزیز نے اقلیتی امور کے صوبائی مشیر وزیر زادہ کت ساتھ ایک پریس کانفرس کے دوران واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا یا انکی جماعت کا اس واقعے سے کائی تعلق نہیں ہے اور وہ حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔
اس واقعے کی بھارت کے بعض اخبارات اور چینلز نے یکطرفہ اور غلط پراپگنڈہ کوریج کر کے حسب روایت اسے اقلیتوں کے خلاف پاکستان کے رویے کا نام دینے کی کوشش کی حالانکہ یہ ایک غیر دانستہ حرکت تھی جس کا اقلیتوں کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور پاکستان کے ہر حلقے نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔
یاد رہے کہ بدترین دہشت گردی اور بد امنی کے زمانے میں بھی خیبر پختونخواہ پاکسان اور افغانستان کا وہ مثآلی خطہ رہا جہاں شمالی وزیرستان، بنیر، خیبر، سوات، نوشہرہ، بنوں، کوہاٹ اور پشاور سمیت ان تمام علاقوں میں ہندوؤں اور سکھوں کی عبادت گاہوں پر حملوں سےپرہیز کیا گیا جہاں ان کی آبادی اور عبادت گاہیں موجود تھیں۔ دہشت گردی کے دور میں حکومت اور عوام کے علاوہ حملہ آور مذہبی گروپوں نے بھی ان عبادت گاہوں کا خیال رکھا اس کی بنیادی وجہ ان اقلیتوں کا صدیوں سے یہاں قیام اور برادرانہ تعلقات تھے کیونکہ صوبے کے عوام نے کبھی بھی خود سے انکو الگ نہیں سمجھا اور یہی وجہ ہے کہ صوبے کے کاروبار اور ترقی میں ہندوؤں کا بنیادی حصہ اور کردار رہا ہے۔
یہ مثالی روایت صرف قیام پاکستان کے بعد قائم قائم نہیں ہوئیں بلکہ پشاور 1947ء اور 1948ء کے نازک دور میں ہونیوالی دوطرفہ فسادات کے دوران پورے خظے کا وہ واحد شہر تھا جہاں مقامی پشتون آبادی اور ان کے لیڈروں نے نہ صرف ہندوؤں اور سکھوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا بلکہ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اپنی مشہور کتابوں “ڈسکوری آف انڈیا” اور تاریخ عالم سے انتخاب میں کئی جگہوں پر خود اعتراف کیا ہے کہ پشاور اور صوبہ خیبرپختونخواہ میں ان فسادات کے دوران مقامی آبادی اور قیادت نے تاریخی کردار ادا کیا۔ اس لئے یہ تاثر قطعیطور پر غلط ہے کہ صوبے میں اقلیتوں یا انکے حقوق کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔