Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Tuesday, April 23, 2024

پشتون قومی جرگہ کا انعقاد اور جاری کشیدگی

گزشتہ روز چارسدہ میں مزدور کسان پارٹی کے زیر اہتمام پشتون قومی جرگہ کا انعقاد کیا گیا جس میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے بغیر ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے اہم رہنماؤں، میڈیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سمیت صاحب الرائے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس جرگہ کا مقصد افغانستان، پاکستان اور خطے خصوصاً پشتون بیلٹ کو درپیش صورت حال انتہاپسندی، طالبان کی ری گروپنگ اور دیگر متعلقہ مسائل پر مکالمہ کرنا اور حالات کا جائزہ لینا تھا۔
جن مقررین نے جرگے میں اظہار خیال کیا ان میں آفتاب خان شیرپاؤ، میاں افتخار حسین ،منظور پشتین، ایمل ولی خان، مختار باچا، محسن داوڑ ، سلیم صافی، مختیار یوسفزئی ، حیدر زمان خان، ہمایون خان، شمس مہمند، ساجد حسین اعوان، وگمہ فیروز، مولانا جلال جان، ڈاکٹر مشتاق، عقیل یوسفزئی، حیات روغا نے،شکیل وحیداللہ اورمیزبان افضل خاموش شامل تھے۔ مقررین نے خصوصاً افغانستان کی کشیدہ صورتحال پر کھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ اگر افغانستان میں جاری کشیدگی اور حملوں کا راستہ نہیں روکا گیا تو اس سے پاکستان خصوصاً پشتون بیلٹ شدید متاثر ہوگا اور علاقائی امن خطرے میں پڑ جائے گا۔ مقررین میں سے اکثر نے طالبان اور ان کے حامی ریاستوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اشرف غنی کی حکومت کو عوام کے مینڈیٹ کا حامل قرار دے کر طالبان کی مخالفت اور مزاحمت کی جبکہ جے یو آئی، جماعت اسلامی اور میڈیا کے نمائندگان نے جاری صورتحال میں فریق بننے کی بجائے ثالثی پر مبنی کردار کی وکالت کرتے ہوئے امریکہ افغان حکومت اور بعض دیگر اسٹیک ہولڈرز کو بھی حالات کا ذمہ دار قرار دے کر اپنی تجاویز پیش کیں۔
سیاسی قائدین کا متفقہ خیال یہ تھا کہ پاکستان افغانستان کے امن کے لیے درکار کردار ادا نہیں کر رہا اور الزام لگایا کہ پاکستانی ریاست اب بھی طالبان کی سرپرستی کر رہی ہیں تاہم دوسرے فریق کا موقف تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اشرف غنی کی حکومت کو دوحا پراسیس سے باہر رکھتے ہوئے طالبان کو حاوی ہونے کا موقع فراہم کیا اور امن قائم کیے بغیر جلدی میں انخلاء کے اقدام نے صورتحال کو پرخطر اور تشویشناک بنا دیا۔ اس موقع پر سیاسی قائدین کا موقف تھا کہ اگر اب کے بار یہ آگ پھیل گئی تو اس کی مخالفت کے ساتھ ساتھ مزاحمت بھی کی جائے گی جبکہ یہ بھی بتایا گیا کہ جان بوجھ کر پشتونوں کو جنگوں کا ایندھن بنایا جارہا ہے۔ اکثر قائدین نے اشرف غنی کی حکومت کی کھل کر حمایت کی تاہم دوسرے فریق کا نقطہ نظر رہا کہ ماضی کے تجربات جاری پراکسیز کے تناظر میں افغان طالبان کی کھل کر مخالفت کی بجائے مصالحت اور میانہ روی کا راستہ اپنا کر اپنے کارکنوں کو ماضی کی طرح پھر سے خطرے میں ڈالنے کے مجوزہ رویے سے گریز کیا جائے۔ ساتھ میں یہ مشورہ بھی آ گیا کہ تمام اہم پشتون رہنماؤں اور مشران کے ذریعے نہ صرف بعض متعلقہ ریاستوں بلکہ افغان جنگ کے فریقین کو بھی مذاکرات اور مصالحت پر آمادہ کرنے کی کوششیں کی جائے اور الزام تراشی، فریق بننے کی روش سے گریز کیا جائے۔
اس موقع پر کہا گیا کہ پاکستان میں فورسز اور اہم سیاسی کارکنوں، مشران پر ٹی ٹی پی کے حملوں کی تعداد میں اضافہ اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ ٹی ٹی پی پھر سے منظم ہو کر حملہ آور ہو گئی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ سیاسی قوتوں اور عوام کی تشویش میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ میسنگ پرسنز کے معاملے، علی وزیر کی گرفتاری، قبائلی اضلاع کے استحکام اور ترقی، اٹھارویں ترمیم، سی پیک اور پاک افغان تجارت جیسے مسائل پر بھی بحث کرکے مطالبہ کیا گیا کہ امتیازی سلوک کا خاتمہ کرکے ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے تاکہ پاکستان کو پر امن بنا کر سب کے حقوق کو یقینی بنایا جائے۔
جرگے کے دوران ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی کہ جرگے میں شریک پارٹیاں امن کے حق میں ڈویژنل لیول پر ریلیاں نکالیں اور افغانستان کے استقلال اور استحکام کے حق میں آواز اٹھائی جائے ۔ تاہم امن ریلیوں یا کسی اور مشترکہ جدوجہد کا کوئی عملی پلان یا فارمولا سامنے نہیں آیا۔ دوسری طرف سابقہ اور حالیہ جرگوں کے تناظر میں مزید جرگے منعقد کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی مگر اس کے لیے بھی کسی ٹھوس فیصلے یا فارمولے کا اعلان نہیں کیا جا سکا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے اجتماعات مکالمے اور مشاورت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تاہم اس قسم کی سرگرمیوں کی کامیابی اور بہتر نتائج کے لئے لازمی ہے کہ تلخ زمینی حقائق اور چیلنجز کا ادراک کرتے ہوئے محض سیاسی مخالفت کی بنیاد پر کسی ایک فریق کی حمایت یا مخالفت کی بجائے مصالحت اور ثالثی کا کردار ادا کیا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket