Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, March 29, 2024

پختونخوا کابینہ، فیصلہ ساز فورم یا تجربہ گاہ؟

خیبر پختونخوا کی صوبائی کابینہ میں ایک بار پھر ردوبدل کر کے وزیرسماجی بہبود ہشام انعام اللہ خان اور مشیر خوراک قلندر لودھی کو باہر نکال دیا گیا ہے۔ حکومتی ترجمان کامران بنگش کے مطابق کابینہ میں کسی کو رکھنے کا واحد معیار میرٹ وزراء کی کارکردگی کا پیمانہ ہے اور یہ کہ ایسی کوئی تبدیلی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی صوابدید پر ہے۔ وزراء، معاونین خصوصی اور مشیروں کو ہٹانے اور بٹھانے کی پریکٹس وفاقی سطح پر بھی گزشتہ تین ساڑھے تین سال سے جاری ہے اور ایک اندازے کے مطابق اب تک تقریباً ایک درجن بار کابینہ میں ردوبدل کیا جا چکا ہے تاہم اس دوڑ میں خیبرپختونخوا کی دونوں صوبائی حکومتیں وفاق سے کئی قدم آگے رہی ہیں اور یہ سلسلہ کسی بڑے وقفے کے بغیر جاری ہے جبکہ سیکرٹریز کی لیول پر بھی یہ صوبہ تبدیلیوں کا منفرد ریکارڈ رکھتا ہے۔

اس ضمن میں حکومتی موقف کارکردگی کا پیمانہ اور صوابدید جیسے دلائل اپنی جگہ مگر ایک سوال سب کے ذہن میں بار بار آتا ہے کہ جن جن وزراء کو بوجوہ  انکی وزارتوں سے مختلف اوقات میں کارکردگی کی بنیاد پر الگ کیا گیا ان میں سے 90 فیصد کو چند ماہ بعد پھر سے کابینہ کا حصہ بنایا گیا۔ اگر ان کی کارکردگی واقعی بہتر نہیں تھی تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کو پھر سے ایک اور تجربہ کی بنیاد پر دوبارہ کابینہ میں کیوں اور کس دلیل کی بنا پر شامل کیا گیا؟ ہشام انعام اللہ کی ہی مثال لے لیتے ہیں۔  وہ ابتدا میں وزیر صحت کے اہم ترین عہدے پر فائز رہے۔  دو برس بعد ان کو وجوہات بتائے بغیر اس وزارت سے ہٹا یا گیا اور تیمور جھگڑا کو یہ اضافی وزارت اس کے باوجود دی گئی کہ ان کے پاس وزارت خزانہ پہلے سے موجود تھی۔  اگر ہشام انعام اللہ واقعی نااہل تھے تو ان کو دوسری وزارت کیوں دی گئی اور اب ان کو اِسی وزارت سے کیوں فارغ کیا گیا؟

اس ضمن میں لمبے عرصے تک کابینہ سے باہر رکھنے والے وزیر عاطف خان کی بھی مثال دی جاسکتی ہیں۔ جنہوں نے ماضی میں وزیر تعلیم اور ٹورزم میں (بقول پی ٹی آئی  اور عمران خان )  شاندار کارکردگی دکھائی۔  محمود خان کے ساتھ اختلافات اور مجوزہ سازش (بقول حکومتی حلقے) کی بنیاد پر ان کو دو دیگر ساتھیوں شہرام ترکئی  اور شکیل خان سمیت کابینہ سے باہر کیا گیا مگر چند ماہ قبل جب عاطف خان کو ساتھیوں کے ہمراہ دوبارہ لایا گیا تو ان کو تعلیم کی بجائے دوسری وزارتیں دی گئیں۔ حکومت یہ وضاحت کرے کہ ان قلابازیوں کا مقصد کیا ہے اور یہ تجربے کیوں کیے جارہے ہیں؟ ایک اور وزیر شوکت یوسفزئی کو سب سے زیادہ تبدیلیوں کا اعزاز حاصل رہا ہے ۔ پرویز خٹک کے دور میں ان سے نہ صرف یہ کہ ایک بار وزارت صحت لی گئی بلکہ بعد میں دوسری وزارت بھی دی گئی۔ محمود خان کی کابینہ میں وہ پہلے وزیر اطلاعات اب وہ دوسری وزارتوں پر فائز ہیں مگر ان تبدیلیوں کی وجوہات نہیں بتائی جا رہی ہیں۔

ضیاء اللہ خان بنگش ایک فعال کابینہ رکن تھے ان کے ساتھ اور معاون خصوصی غزن جمال سمیت وہی کام کیا گیا جو کہ حال ہی میں ہشام اور قلندر لودھی کے ساتھ کیا گیا۔ جن دوسرے وزراء دیگر کو اس صورتحال سے دوچار ہونا پڑا ان میں حمایت اللہ خان اور اجمل خان وزیر شامل ہیں۔  یوں اس حکومت میں اس گیم کے دوران جتنے افراد کو نکالا گیا یا ان کی وزارتیں تبدیل کی گئی ان کی تعداد 11 بنتی ہے۔

 اجمل وزیر کو ایک آڈیو اسکینڈل کے الزام میں برطرف کیا گیا۔  انکوائری قائم کی گئی مسلسل رکاوٹوں اور تاخیر کے باوجود رمضان المبارک میں انکوائری رپورٹ پبلک کی گئی۔  سرکاری طور پر رپورٹ میں ان کو بے گناہ قرار دے کر کلیئر کیا گیا مگر ان کو اس کے باوجود دوسروں کی طرح کابینہ کا حصہ نہیں بنایا گیا نہ ہی ان بیوروکریٹس کے خلاف کوئی ( علاقائی ہی کاروائی سہی)  کاروائی کی گئی جو کہ آڈیو سازش میں شامل تھے۔  یہاں پر سوال اٹھتا ہے کہ اگر دوسروں کوبوجوہ دوبارہ کابینہ میں شامل کیا جا سکتا ہے تو اس واحد شخص اجمل وزیر کو کیوں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا جس کے خلاف واحد اعلیٰ سطحی انکوائری کی گئی جس کی رپورٹ میں ان کو بے قصور قرار دیا گیا؟

عمران خان اور محمود خان کی اپنی صوابدید اور آتھارٹی اپنی جگہ مگر اس رویے نے ان کی قیادت، طرز انتخاب اور گورننس کے طریقہ کار اور گورننس کی صلاحیتوں کو بہرحال سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ جن گیارہ کابینہ ارکان کو کھڈے لائن لگایا گیا ان میں پانچ یا چھ کا تعلق جنوبی یا قبائلی اضلاع سے ہے جس کے باعث ان علاقوں کو کافی منفی پیغام دیاگیا ہے۔ اس لئے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ  اس رویے پر نظر ثانی کر کے ٹیم سلیکشن کے معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket