Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, April 19, 2024

پختونخواہ سیاستدان استعمال تو نہیں ہو رہے؟

وزیراعظم عمران خان اور بعض اہم ریاستی اداروں کے خلاف تحریک اور مخالفانہ مہم چلانے والے لیڈروں اور پارٹٰؐیوں میں سے اکثریت کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے اور اسی پس منظر میں بعض حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ لیڈرز عمران خان کی مخالفت میں ملک کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کا سربراہ اسی صوبے سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل الرحمان ہیں جبکہ ان کا ساتھ دینے والے اسفندیار ولی خان اور آفتاب خان شیرپاؤ کا تعلق بھی اسی صوبے سے ہے۔ یہ وہی مولانا فضل الرحمان ہیں جنہوں نے ایم ایم اے کے دور حکومت میں جنرل پرویز مشرف کا کھل کر ساتھ دیا تھا اور اسی کے نتیجے میں ایم ایم اے

ٹوٹ گئی تھی دوسرے لیڈر اسفندیارولی خان کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کی پارٹی نا صرف یہ کہ مشرف کے ریفرنڈم کی مخالفت کی بجائے لاتعلقی کا فارمولہ لے کر آئی تھی بلکہ سال 2007 کے دوران فریقین میں ساتھ چلنے کا فارمولا بھی طے پایا تھا۔اے این پی وہ پارٹی رہی ہے جس نے پشتونوں کو کئی دہائیوں سے یہ باور کرایا کہ پنجاب اور نواز شریف جیسے لیڈر پشتون قوم اور خیبرپختونخواہ کے دشمن ہیں اور یہ کہ ان کے وسائل لُوٹے اور حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ کئی دہائیوں تک پنجابی لیڈرشپ کے خلاف نفرت پھیلانے والے یہ عناصر آج جہاں نواز شریف کا کھل کر دفاع کر رہے ہیں وہاں جمہوریت کے نام پر بعض غیر حقیقت پسندانہ نعرے لگوا کر نفرت پھیلانے کا سبب بھی بنے ہوئے ہیں ماضی میں جب ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ معاملات بگڑ گئے تو بھٹو نے ولی خان اور دوسرے لیڈروں کو جیلوں میں ڈالا اور ان کی پارٹی نیپ پر پابندی لگا دی۔ ولی خان ہی وہ لیڈر تھے جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کو ترغیب دے کر کہا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو اگر تم بھٹو کو زندہ رہنے دو گے تو قبر میں، میں ہی جاؤں گا اس لیے جو کرنا ہے جلدی کرو۔

 اسی فوجی آمر نے ولی خان اور دوسرے لیڈروں کو جیلوں سے نکالا اور لمبے عرصے تک ان کے درمیان گہرے اور قریبی مراسم رہے ہیں۔ اے این پی اور جے یو آئی کو جب بھی ضرورت پڑی ہے ان پارٹیوں نے سیاسی مفادات کے لیے مقتدر قوتوں کا ساتھ دیا اور اس وقت بھی حالات یہ ہیں کہ اے این پی چند سیٹوں کے لیئے بلوچستان حکومت میں شامل ہے اور وزارتوں کا مزہ لے رہی ہے۔

جے یو آئی اور اے این پی شائد اسی لئے عمران خان اور ان کی حکومت کی کچھ زیادہ مخالفت کر رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کو دوسرے صوبوں کے مقابلے میں خیبرپختونخواہ میں نا صرف زیادہ مقبولیت حاصل ہے بلکہ یہ پارٹی بوجہ دوسری بار صوبے میں برسر اقتدار آئی ہے حالانکہ اس وقت وفاقی کابینہ کے اکثر وزراء کا تعلق اسی صوبے سے ہے اور عمران خان بھی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں خیبرپختونخواہ پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جہاں تک صوبے کے ایک معتدل مزاج اور تجربہ کار سیاستدان آفتاب شیرپاؤ کا تعلق ہے تو وہ بے جا اور یکطرفہ مخالفت نہیں کر رہے۔ ان کی پارٹی پچھلی حکومت میں تحریک انصاف کی اتحادی تھی اور شیر پاؤ خان بے جا مزاحمت سے گریز کر رہے ہیں۔

اگر جے یو آئی اور اے این پی یا پی پی پی اوراے این پی کے درمیان دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں انتخابی اتحاد ہو جاتا تونتائج مختلف ہوتے مگر ان سب کی تنہا پرواز نے پی ٹی آئی کو اکثریت دلوادی۔

یہاں ایک اور سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ اگر عمران خان کی حکومت گر جاتی ہے تو کیا نئی حکومت ان لیڈروں یا پارٹیوں کی بنے گی یا پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ نون کی؟ اس کا جواب ظاہر ہے کہ سب کو معلوم ہے ایسے میں اگر یہ تاثر قائم کیا جائے کہ یہ پارٹییاں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی جنگ لڑ رہی ہیں تو اس میں غلط کیا ہے۔

 جہاں تک مقتدر قوتوں کے کردار کا تعلق ہے تواس کو جان بوجھ کر مفروضوں کی بنیاد پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک عام مگر حقیقت پر مبنی تاثر تو یہ ہے کہ جو بھی پارٹی اقتدار یا اس میں حصہ دار ہوتی ہے ان کو سب اچھے لگتے ہیں اور مقتدر قوتوں کی تعبیداری بھی کی جاتی ہے تاہم ایسا نہ ہو تو معاملہ بالکل الٹ اور رویہ مخالفانہ ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پختون خواہ کے یہ لیڈر صوبے کے مفاد میں غیر ضروری مزاحمت سے گریز کریں اور حکومت بھی ان کو قریب لانے کی کوشش کرے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket