Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, April 20, 2024

مہاجرین کی آمد کا خدشہ اور قوم پرستوں کا عجیب طرز عمل

وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کے حالات بگڑنے کی صورت میں افغان مہاجرین کو ماضی کی طرح یہاں آنے کی اجازت نہیں دے گا کیونکہ مہاجرین کی صفوں میں دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔

دوسری طرف جرمن اور امریکن میڈیا کی رپورٹس کے مطابق کابل اور دیگر شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ پاسپورٹس کے حصول کے لئے قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں تاکہ باہر منتقل ہو سکیں۔ اب کی بار طالبان نے مشرقی اور جنوبی افغانستان کی بجائے شمالی علاقوں سے اپنی کارروائیوں اور فتوحات کا آغاز کیا ہے جس کے باعث فی الحال مہاجرین کی آمد کا زیادہ امکان نہیں تاہم اس خدشے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اگر کشیدگی اسی طرح بڑھتی گئی تو مہاجرین کی اکثریت بوجوہ  پھر سے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے پشتون علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوں گے۔

یہ دو صوبے گزشتہ چالیس برسوں سے لاکھوں مہاجرین کا بوجھ اٹھاتے آئے ہیں جبکہ عالمی برادری پاکستان کو اس مد میں کوئی امداد بھی کافی برسوں سے نہیں دے رہی۔ پاکستان پر ویسے بھی طالبان کی حمایت کے الزامات لگتے رہتے ہیں اور اس کی معاونت اور قربانیوں کو تسلیم بھی نہیں کیا جا رہا ایسے میں بہتر طریقہ یہی ہے کہ مہاجرین کو پھر سے پاکستان آنے کی اجازت نہ دی جائے۔نام و نہاد سوشل میڈیا پر بعض قوم پرست حلقے حسب سابق امریکہ اور افغان حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے پاکستان پر امریکی ناکامی کا ملبہ گرانے میں مصروف عمل ہیں حالانکہ یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہے کہ پاکستان عملی طور پر افغانستان میں ایک عوامی حکومت کی نہ صرف حمایت کرتا آرہا ہے بلکہ طالبان کو تشدد اور حملوں سے باز رکھنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے سیکرٹری خارجہ اینٹونی بلنکن نے جمعہ کے روز شاہ محمود قریشی کو فون کرکے جاری صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ امریکہ، جرمنی اور فرانس پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ جن افغانیوں نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران ان کی معاونت کی ہے ان کو ہزاروں کی تعداد میں ان ممالک میں بسایا جائے گا۔ اس اعلان نے جہاں ایک طرف طالبان کے اَپر ہینڈ اور ممکنہ فتوحات کی تصدیق کی، وہاں ہزاروں لاکھوں افغان باہر منتقل ہونے کی کوشش میں لگ گئے اور پاسپورٹ آفسز پر رش کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے۔

افغان فورسز نہ صرف ٹولیوں کی شکل میں سرنڈر ہورہی ہیں بلکہ عوام کے علاوہ بعض اہم ممالک اور مغربی میڈیا ان کی صلاحیت اور ڈسپلن پر بھی سوالات اٹھانے میں مصروف ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ بعض قوم پرست پاکستان کے علاوہ اب عالمی میڈیا کو بھی پرو طالبان کہنے لگے ہیں جو کہ افغانستان آنا اور یہاں رہنا بھی پسند نہیں کرتے اور باہر بیٹھ کر خواہشات پر مبنی تبصرہ کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود تلخ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے خلافِ توقع علاقوں پر علاقے قبضہ کر رہے ہیں اور اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ خواتین کو بھی بندوقیں تھمائی گئی ہیں جس پر مغرب زدہ قوم پرست ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں حالانکہ یہ لوگ افغانیت اور غیرت کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ بوکھلاہٹ کا شکار نظر آرہے ہیں۔

مہاجرین کی صفوں میں جہاں ایک طرف دہشت گردوں کی آمد کا خدشہ ہے وہاں وہ عناصر بھی پاکستان آئیں گے جو کہ دن رات پاکستان کو گالیاں دے رہے ہیں اور اس شوق میں ایک قوم پرست پارٹی کے لیڈر اور کارکن بھی پیش پیش ہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ جس پارٹی  کو افغان حکمرانوں اور عوام کی اکثریت پسند نہیں کرتی وہ ایک ایسی افغان حکومت کے غم میں مری جا رہی ہے جس کے اپنے سربراہان  بھی ایک پیج پر نہیں ہے اور وہ موجودہ حالات کے براہ راست امریکہ کی طرح ذمہ دار ہیں۔ یہ بات افغانوں کو بھی معلوم ہے کہ یہ قوم پرست اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے افغانستان کے نعرے لگا رہے ہیں اور اگر افغانی وہاں سے نکل آئے تو ماضی کی طرح یہ قوم پرست ان کی مدد اور چند روز کی میزبانی بھی نہیں کریں گے۔ اس کے باوجود یہ منطق سمجھ میں نہیں آرہی کہ یہ قوم پرست طالبان کی غیر ضروری مخالفت کر کے ماضی قریب کی طرح اپنے کارکنوں اور خود کو پھر سے کیوں طالبان وغیرہ کی نظروں میں لانا چاہ رہے ہیں۔

اسی رویے کے نتائج یہ عناصر 2007 کے بعد کے برسوں میں اس کے باوجود لاتعداد حملوں اور اموات کی شکل میں بھگت چکے ہیں کہ صوبہ پختونخوا میں ان کی حکومت تھی۔ اس عرصے میں یہ لوگ حکومت میں رہنے کے باوجود صوبہ تو کیا اپنی حفاظت بھی نہیں کر پائے تھے اور ہزاروں کارکن اور عہدیداران اب بھی اپنے علاقوں کی بجائے اسلام آباد اور دوسرے شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ اگر افغانی پاکستان سے گلہ شکوہ کر رہے ہیں تو ان کی منطق پھربھی سمجھ میں آتی ہے تاہم پاکستانی قوم پرستوں کی غیر ضروری اور غیر معمولی مخالفت اور افغانستان کی حکومت کا مقدمہ لڑنا سمجھ میں نہیں آرہا۔ صوبہ پختونخوا ایسے عناصر کے باعث بہت خراب حالات کا سامنا کر چکا ہے اس لیے خواہشات اور جذبات پر مبنی روئے ترک کیے جائیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket