Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, April 24, 2024

فضل الرحمان کے بیان پر اے این پی کا ردعمل

جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے الزام لگایا ہے کہ اے این پی نے پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کی تھی۔اس بیان کے بعد ایمل ولی خان سمیت دوسرے لیڈروں نے نازیبا الفاظ کے استعمال سمیت جو ردعمل دکھایا اور کارکنوں نے جو الفاظ استعمال کیے وہ نہ صرف انتہائی نا مناسب تھے بلکہ مشاہدے میں آرہا ہے کہ اس پارٹی کی لیڈرشپ شدید ڈپریشن کا شکار ہے اور اس کی بنیادی وجہ افغانستان کی جاری صورتحال ہے جس کو اس پارٹی نے غیر ضروری طور پر اپنے اعصاب پر سوار کردیا ہے۔

جہاں تک مشرف کے ریفرنڈم کا تعلق ہے یہ بات آ ن دی ریکارڈ ہے کہ اسفندیار ولی خان نے ایک باقاعدہ پریس کانفرنس کے دوران عجب قسم کا موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے این پی اس ریفرنڈم سے لاتعلق رہے گی ۔نہ اس کی حمایت کرے گی نہ مخالفت۔سیاسی قائدین اور تجزیہ کاروں نے اس وقت اس عجیب فارمولہ کو ریفرنڈم کی حمایت کا نام دیا تھا کیونکہ ایک امریکی پلان کے تحت اے این پی اور پرویز مشرف کے درمیان ڈیل چل رہی تھی اور اس ڈیل میں اس پارٹی کو بوجوہ صوبہ خیبر پختونخوا میں اقتدار میں لانا شامل تھا۔ریفرنڈم تو بعد کی بات ہے اے این پی نے پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے کا بھی کھل کر خیر مقدم کیا تھا اور بیگم نسیم ولی خان کے متعدد بیانات تاریخ کا حصہ ہیں کہ مشرف اور صدر بش اے این پی کا ایجنڈا لیکر چل رہے ہیں۔

یہ حقیقت بھی باخبر حلقوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکی پلان کے تحت 2008 کے الیکشن میں پرویز مشرف نے نہ صرف اس پارٹی کی ان ڈایریکٹ فنڈنگ کی بلکہ انڈرسٹینڈنگ کی یہ حالت تھی کہ جرنل احسان الحق اور مرحوم اسد منیر کی ٹیم کے ذریعے نہ صرف متعدد امیدوا روں کو ٹکٹ دیے گئے بلکہ خواجہ محمد خان ہوتی سمیت ایک درجن رہنما بھی اے این پی میں شامل کئے گئے۔پرویز مشرف نے بعد میں ایک انٹرویو کے دوران ان باتوں کے علاوہ بعض دیگر انکشافات بھی کیے تھے۔مرحوم اسد منیر کھلے عام کہا کرتے تھے کہ اسفندیار ولی خان نے محض اس بنیاد پر پشاور سے ان کے تبادلے کی کوشش کی تھی کہ وہ پشتون ہونے کے باعث مجوزہ ڈیل کی تفصیلات لیک کرسکتے ہیں۔تاہم یہ مطالبہ نہیں مانا گیا۔

 بعد میں سینٹ کے ایک الیکشن میں جب بعض ایشوز پر معاملات خراب ہو گیے تو اے این پی مذکورہ ادارے کے ایک اہم افسر کے گھر جرگہ لیکر گئی۔اس کے باوجود اسفندیار ولی خان پیپلز پارٹی کے ظاہر علی شاہ کے ووٹ سے محض چند ہی پواینٹس  کی بنیاد پر ہارنے سے بچ گئے۔اے این پی گزشتہ دو  الیکشن کے دوران عمران خان کی تحریک انصاف کے ساتھ مخلوط حکومت تشکیل دینے پر بھی راضی ہوگئی تھی مگر الیکشن نتائج نے اس اقدام کو عملی ہونے نہیں دیا۔یہ تاثر دینا کہ یہ پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہی ہے زمینی حقائق کے منافی ہے۔اگر ایسی ہی بات ہوتی تو آج اے این پی بلوچستان حکومت میں ڈیڑھ وزارتوں کی شیئر ہولڈر نہ ہوتی۔

آج کل اے این پی لندن میں میاں نواز شریف اور ایک افغان وفد کی متنا زعہ ملاقات کا دفاع کر رہی ہے۔حالانکہ یہ وہی نواز شریف ہیں جنھوں نے ڈاکٹر نجیب اللہ کے قتل کے بعد کابل جاکر مجاہدین کی فتح پر شکرانے کے نوافل ادا کئے تھے۔شاید یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم یا یاد ہے کہ اس وقت جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اے این پی مرکز اور پختونخوا میں نواز شریف کی اتحادی تھی اور حکومت میں شامل تھی۔ اے این پی جب حکومت میں ہوتی ہے تو اس کو سب کچھ ٹھیک لگتا ہے مگر بوجوہ جب باہر ہوتی ہے تو مزاحمت پر اتر آتی ہے اور اس کی تازہ مثال افغانستان کے معاملے پر اس پارٹی کا یکطرفہ اور جانبدارانہ موقف ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket