Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, March 29, 2024

خاتون اے آئی جی عائشہ گل کی کامیابی کا سفر

انٹرویو ۔ ارشد اقبال

عائشہ گل کااسلام آباد کے مختلف تھانوں میں بطور پولیس آفیسر بہترین انداز میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد خیبر پختونخوا پولیس کا حصہ بننے کے بعدخصوصی انٹرویو
AIG Ayesha Gulخیبر پختونخوا کی دارالحکومت پشاورمیں نئی تعینات ہونے والی اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل آف پولیس(اے آئی جی جینڈرایکوالٹی) کا تعلق صوابی سے ہے اور انہوں نے ابتدائی تعلیم پشاور سے حاصل کی۔ اور پشاور یونیورسٹی سےمعاشیات میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور پھر نسٹ یونیورسٹی سے اکنامکس میں ہی ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کرکے سٹیٹ بنک آف پاکستان میں ایک سال تک ملازمت بھی کی۔ تاہم عائشہ گل کو محسوس ہوا کہ بینک کی ملازمت ان کیلئے مناسب نہیں اورسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ملازمت سے مطمئن بھی نہیں تھی۔ عائشہ گل کے مطابق ان کویوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس ملازمت کیلئے نہیں بنی۔ چونکہ ان کا والد ایئر فورس میں تھے تو وردی میں ان کیلئے خاندانی کشش بھی تھی۔ اس لئے سی ایس ایس کا امتحان دیا ۔سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے پولیس سروس میں آفیسر کے عہدے پراسلام آباد سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا ۔اے ایس پی تھانہ مارگہ اور تھانہ کوہسارکے بعد اے ایس پی ٹریفک بھی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عائشہ گل نےایک سال کی خصوصی تربیت کیلئےفرنٹیئر کانسٹیبلری میں بھی ضلعی آفیسر کے عہدے پر کام کیا ۔ ایف سی میں وہ موجودہ آئی جی خیبر پختونخوا معظم جا انصاری کی زیر قیادت کام پرفخرمحسوس کرتی ہیں۔آئی جی معظم جا انصاری آج کل خیبر پختونخوا میں بھی ان کے باس ہیں۔پولیس میں بطور آفیسر تقرری سے متعلق وہ کہتی ہیں کہ محکمہ پولیس اس لئے مناسب پلیٹ فارم تھا کہ یہاں عوام سے زیادہ رابطے میں رہنا پڑتا ہے اور پولیس ملازمت میں عوامی مسائل کے حل کی گنجائش بھی دیگر شعبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

عائشہ گل کہتی ہیں کہ اب پولیس سروس اسلام آباد میں مختلف تھانوں میں ذمہ داریاں سنبھالنے اور ترقی ملنے کے بعد خیبر پختونخوا پولیس کا حصہ ہوں جس پر میں فخر محسوس کر رہی ہوں ۔ کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خیبر پختونخوا پولیس کی قربانیاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اور تعلق بھی اسی صوبے سے ہے۔
ایک سوال کے جواب میں عائشہ گل نے کہا کہ خیبر پختونخوا پولیس میں ملازمت کا تجربہ نہیں تھا ،تبادلہ ہوا تو سوچ رہی تھی کہ کیا ہوگا۔ آئی جی خیبر پختونخوا نے پہلے سے ہی میرے لئے ذہن بنالیا تھا کہ وہ مجھ سے کیا کام لیں گے۔ دوسری جانب جب خیبر پختونخوا پولیس میں آئیں تو ماتحت افسران نے کہا کہ میڈم کس ضلعے میں جائیں گی۔ پھر آئی جی سے ملی تو انھوں نے کہا کہ آپ ضلعی پولیس میں نہیں جائیں گی۔آئی جی صاحب کے ذہن میں میرے لئے ایک نیا عہدہ تھا۔ آئی جی خیبر پختونخوا نے بتایا کہ آپ خواتین ، بچوں او بالخصوص خواجہ سراؤں کے مسائل پر کام کریں۔یہ میرے لئے ایک اور اعزاز اور فخر کی بات تھی کہ میرے لئے ایک نیا عہدہ تخلیق کیا گیا، ایک نئی ذمہ داریاں دی گئیں۔ یہ آئی جی خیبر پختونخوامعظم جا انصاری کا مجھ پر اعتماد ہی تو ہے کیونکہ میں ان کے ساتھ ایف سی میں بھی بطور ضلعی آفیسر کام کر چکی تھی تو ان کے علم میں یہ بات تھی ۔اس کیلئے پھر آئی جی نے کیپیٹل پولیس آفس میں خصوصی ذمہ داریوں کیلئے ایک نئے دفتر کا پروگرام بنایا اور مجھے یہ ذمہ داریاں دیں جس پر مجھے فخر ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس عہدے کی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی آئی جی سے بات چیت کی تو انھوں نے باقاعدہ مجھے گائیڈ لائنز دیں اور وژن بھی دیا کہ وہ آخر اس عہدے سے چاہتے کیا ہیں۔
اے آئی جی عائشہ گل کہتی ہیں کہ اس تقرری اور عہدے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سی پی او سے جو پالیسی ضلعی سطح پر جاتی ہے اس میں کوئی چیز مس نہ ہو ۔سی پی او کی پالیسی ضلعی سطح پر سنجیدگی سے لی جاتی ہےاور اس پالیسی پر اضلاع میں زیادہ فوکس بھی کیا جاتا ہے۔آئی جی نے یہ بھی بتایا کہ ضلعی سطح پر جو خواتین پولیس اہلکار اور آفیسرز ہیں ان کیلئے ماحول کو بہتر کیا جا سکے۔ان کے مسائل کیسے معلوم کئے جائیں۔

AIG Ayesha Gulعائشہ گل کے مطابق خیبر پختونخوا پولیس میں خواتین کی تعدا بہت کم ہے۔آئی جی نے بھی یہ تسلیم کیا ہے۔آئی جی نے ہدایت کی ہے کہ میں سکولوں ،کالجز اوریونیورسٹیزمیں جاؤں اور لڑکیوں سے اپنے تجربات شیئر کروں اور طالبات بھی خواتین پولیس آفیسرز کیلئے کیریئر چوائس کے طور پر دیکھیں۔عام طور پر بھی پولیس کا جو تاثر لوگوں میں ہے اس کو دور کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ پشاور میں ویمن پولیس سٹیشن کو جلد از جلد بحال کیا جائے اور دیگر اضلاع میں بھی خواتین پولیس سٹیشنز کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ خواتین بغیر کسی ہچکچاہٹ تھانوں میں اپنی شکایات بآسانی رجسٹرڈ کرواسکیں ۔دوسری اہم بات سی پی او میں جینڈر ڈیسک کا قیام ہے جس کوبہت جلد مکمل فعال کیا جائیگا ۔ہماری یہ بھی کوشش ہے کہ جب خواتین تھانے جائیں اوران کو وہاں خاتون آفیسر ملے تو وہ بہتر انداز میں ان کے مسائل حل کر سکیں گی۔
عائشہ گل یہ بھی ارادہ رکھتی ہیں کہ مقامی مسائل کے حل کیلئے قائم ڈی آرسیزمیں تعینات خواتین کو بھی اعتماد میں لے سکوں تاکہ ان کے ذریعے بھی سماجی مسائل کے حل کیلئے راستے تلاش کئے جائیں، کیونکہ ان خواتین ککے ذریعے سوسائٹی میں خواتین تک رسائی آسان ہے۔
پسندیدہ شخصیت سے متعلق ایک سوال پر عائشہ گل کسی ایک آفیسر کا نام لینے سے کتراتی رہیں ۔ کہنے لگیں مختلف شخصیات ہیں ،ایک شخصیت میں ایک خوبی پسند ہےتودوسری شخصیت میں کوئی دوسری خوبی۔بڑے اچھے آفیسرز کے ساتھ کام کیا ہے اور تمام آفیسرز سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھنے کو ملا ہے۔
عائشہ گل نے عوام کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ کسی کو بھی کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو وہ اس کو رجسٹرڈ کرکےآواز ضرور اٹھائیں تاکہ پتہ چلے ۔ اگر کوئی اپنا مسئلہ نہیں اٹھائے گا تو ہمیں معلوم نہیں ہوگا کہ اس علاقے میں کیا مسئلہ ہے ۔میں پولیس آفیسر ہونے کے ناطے یہ یقین دلاتی ہوں کہ خیبر پختونخوا پولیس آفیسرز کی جانب سے یہ پالیسی ہے کہ تمام شہری برابر کے حقوق کے حقدار ہیں اور ان کے ساتھ تھانوں سے بھی مکمل تعاؤں کیا جائے گا ۔ہماری کوشش ہے کہ ہم تمام پولیس اہلکاروں اور آفیسرز کو تربیت دیں کہ وہ کس طرح ایک اہم کیس کو دیکھیں گے۔اس تربیت کے بعد پولیس میں ایک اندرونی تبدیلی کی توقع ہے۔
تعلیمی اداروں میں منشیات سے متعلق عائشہ گل کہتی ہیں کہ ہماری بڑی کوشش ہوگی کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی روک تھام پرزیادہ توجہ سے کام کیا جائےاور طالبات کو بالخصوص اس حوالے سے شعور دیا جائے۔ جب میری باقاعدہ ذمہ داریاں شروع ہونگی تو میں اس پر زیادہ توجہ دونگی۔ طلبا و طالبات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ایک بار پولیس نے ان کے سرٹیفکیٹ میں ناٹ ویری فائی لکھا تو ان کا نہ صرف تعلیمی کیریئر ختم ہوجائے گا بلکہ ان کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ جائیگا۔
انھوں نے کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ عوام کو مختلف متعلقہ پلیٹ فام دکھائیں تاکہ ان کے مسائل کے حل میں ان کوآسانی ہو۔اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے تواکثر دیکھنے میں آٰیا ہے کہ ان کو متعلقہ دفتریا ادارے کا پتہ نہیں ہوتا جیسے سائبر کرائم کیلئے ایف آئی اے کے پاس جانا ہوتا ہے ۔یہ اس لئے بھی کہ بیشتر لوگوں کواپنے مسئلے سے متعلق آگاہی نہیں ہوتی ،انھیں شعور نہیں ہوتا ۔اس معاملے میں میڈٰیا کا کردار بھی بہت اہم ہے۔میڈیا کو بھی ہر ادارے میں جانا چاہیے کہ لوگوں سے معلوم کریں کہ ان کو کیا مسائل درپیش ہیں اور ان کے حل کیلئے ان کو کہاں کہاں جانا پڑے گا۔
اے آئی جی عائشہ گل نیوز چینلز بالکل نہیں دیکھتی اور یہ جواز پیش کرتی ہیں کہ نیوز چینلزپرتعمیری خبریں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں ۔ اخباربھی صرف اس کیس سے متعلق پڑھتی ہیں جو ان سے متعلق یاجس میں ان کا ذکر ہو۔اور پھر اس بارے میں ضلعی پولیس سے رپورٹ بھی طلب کرتی ہیں۔البتہ وقت اور موقع ملے تویوٹیوب پرتفریح کیلئے ڈرامے دیکھتی ہیں اور کبھی کبھار فلمیں بھی دیکھ لیتی ہیں۔ عائشہ گل کوادب اور شعر و شاعری سے بالکل دلچسپی نہیں لیکن اگر کبھی کوئی کتاب سامنے آئے تو اس کو ضرور پڑھتی ہیں۔ عائشہ گل کے مطابق ان کوموسیقی بہت پسند ہے لیکن صرف صوفیانہ کلام سنتی ہیں۔عابدہ پروین ان کی پسندیدہ گلوکارہ ہیں اور ان کا صوفیانہ کلام زیادہ پسند کرتی ہیں۔
عائشہ گل نے دوران انٹرویو اعتراف کیا کہ وہ پشتو کی موسیقی بہت کم سنتی ہیں اور کہا کہ پختون ہونے کے ناطے پشتو موسیقی زیادہ سننی چاہیے۔
عائشہ گل کہتی ہیں کہ میری شخصیت رعب دار نہیں لیکن خاندان کے لوگ بضد ہیں کہ میری شخصیت رعب دار ہیں۔میں معمول کے مطابق کسی پر بھی رعب نہیں جماتی۔عائشہ گل کو بنیادی کھانا پکانا بھی آتا ہے اور سب زیادہ چپلی کباب کو کھانا پسند کرتی ہیں ۔ دیسی کھانا کھانے کی شوقین ہیں اور اپنی خواہش پر گھر میں پاستہ بنانا پسند کرتی ہیں۔گھر کے سارے کاموں میں زیادہ فوکس صفائی پر کرتی ہیں اور سب سے زیادہ جھاڑو مارنا انکواچھا لگتا ہے۔ میری اس عادت پر گھر والے بھی مجھ پر غصہ ہوتے ہیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket