Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, April 20, 2024

جج آفتاب آفریدی پر حملہ ، نامزد ملزمان اورواقعے کا پس منظر

انسداد دہشت گردی سوات کے جج آفتاب آفریدی کو اتوار کی شام ان کے خاندان کے تین دیگر افراد سمیت صوابی کے قریب موٹر وے پرسفر کرتے ہوئے ایک منظم حملہ کے دوران موت کے گھاٹ اتارا گیا جبکہ حملے میں ان کے ڈرائیور اور گن مین زخمی ہوئے۔ دیگر جان بحق ہونے والوں میں ان کی اہلیہ، بہو اور 22 ماہ کا پوتا بھی شامل ہے۔  وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت اہم قائدین، وکلاء اورعوامی حلقوں نے اس واقعے پر افسوس اور تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ آئی جی پختونخواہ ثناء اللہ عباسی واقعہ کی اطلاع پاکر جائے واقعہ پر پہنچے اور اہم ہدایات دیں۔

 مقتول جج آفتاب آفریدی کے بھائی اور بیٹے نے واقعے کو دشمنی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی اور ان کے دوسرے قریبی رشتہ داروں جمال آفریدی، دانش آفریدی، محمد شفیق، جمیل آفریدی اور عابد پر ایف آئی آر درج کر دی ہے۔  تاہم نامزد افراد کا اس ایف آئی آر اور واقعے پر کسی قسم کا تبصرہ تادم تحریر سامنے نہیں آیا ہے۔  باخبر حلقے بھی اس افسوسناک واقعے کو ذاتی دشمنی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں اور اس واقعہ میں دہشت گردی کے امکان کو خارج از امکان قرار دیا گیا ہے۔

اس سے قبل مقتول جج کے ایک چھوٹے بھائی سمیع اللہ آفریدی ایڈوکیٹ کو بھی 17 مارچ 2015 کی شام کو پشاور کے نواحی علاقہ متنی میں ان کے دفتر سے گھر جاتے ہوئے مارا گیا تھا۔ اس واقعے کو بظاہر طالبان کے ایک گروہ کے حملے کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا کیونکہ سمیع اللہ آفریدی ان دنوں شکیل آفریدی کے مشہور زمانہ کیس میں بطور وکیل ان کی پیروی کر رہے تھے۔ بعد ازاں جب اس قتل کی تحقیقات کی گئیں تو اس میں بھی ذاتی دشمنی کا عنصر سامنے آیا اور بعض باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعہ کے بعض کڑیاں سمیع اللہ آفریدی کے کیس سے بھی ملتی ہیں کیونکہ ان کے بعض رشتہ داروں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ان کو طالبان نے نہیں بلکہ ذاتی دشمنی نے نشانہ بنایا تھا اور چند ماہ قبل ایک درخواست بھی جمع کرائی گئی تھی۔

 اس ہائی پروفائل کیس یا حملے میں مبینہ طور پر لطیف آفریدی ،اُن کے بھائی اور بیٹے کو نامزد کرنے کے واقعہ نے اسے اور بھی پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے کیونکہ لطیف آفریدی نے اس واقعے پر ابتدائی چند گھنٹوں کے دوران بی بی سی کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ پشتون معاشرے میں خواتین اور بچوں کو اس قسم کے حملوں میں نشانہ نہیں بنایا جاتا ۔اس اہم کیس کی فوری اور موثر تحقیقات کی اشد ضرورت ہے تاہم اس بات کا بھی نوٹس لینا چاہیے کہ موٹروے اتنا غیر محفوظ کیوں ہے اور صوابی اس کے گردونواح میں جرائم کی شرح میں اضافہ کیوں ہوا ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket