Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, March 29, 2024

بریک ڈاؤن کے اسباب اور مسئلے کا مستقل حل

گزشتہ دنوں خیبرپختونخوا سمیت ملک کے تقریباً 70 فیصد علاقوں میں بجلی کی سنٹرل سپلائی سسٹم کی فریکوئنسی بریک ڈاؤن کے باعث بجلی معطل رہی جس کی وجہ سے پاکستان کے عوام اور متعلقہ اداروں میں نہ صرف تشویش کی لہر دوڑ گئی بلکہ حسب روایت مختلف قسم کی افواہیں اور غلط معلومات بھی شئیر کی گئی اور جان بوجھ کر بے یقینی اور خوف و ہراس کی صورتحال پیدا کی گئی۔ المیہ یہ رہا کہ کئی گھنٹوں تک بریک ڈاؤن کی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔

یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ بریک ڈاؤن کے باعث ملک کے اکثر علاقوں میں اس نوعیت کی صورتحال پیدا ہوئی۔ سال 2006 کے بعد تقریباً 4 بار ایسا ہوا اب کے بار حکومت نے ایک مربوط انکوائری کا حکم دینے کے علاوہ نصف درجن سے زائد متعلقہ افراد کو معطل بھی کیا ہے تاکہ مسئلہ کا حل نکالا جاسکے اور آئندہ کے لئے اس قسم کی صورتحال اور یکطرفہ پروپیگنڈہ سے بچا جا سکے۔ پاکستان میں توانائی خصوصاً بجلی کا مسئلہ اور بحران وہ مسئلہ ہے جس پر قابو پانا اس ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے اگرچہ سال 2008 کے بعد نیشنل گریڈ اسٹیشن میں کئی ہزار میگا واٹ کے بجلی شامل کی گئی جس کے باعث لوڈشیڈنگ میں کافی کمی واقع ہو گئی ہے تاہم سب سے بڑا مسئلہ سپلائی اور ڈسٹریبیوشن سسٹم میں موجود اُن مشکلات اور نقائص کا ہے جس کے باعث جہاں ایک طرف اس قسم کے بریک ڈاؤن سامنے آتی رہی ہیں بلکہ ہزاروں میگاواٹ بجلی لائن لاسز کے باعث ضائع بھی ہوتی آرہی ہے۔ کسی بھی حکومت نے اس مسئلے کا مستقل حل نہیں نکالا کہ کیسے سپلائی سسٹم کو جدید اور فعال بنایا جائے۔ اس کی دو وجوہات بتائی جاتی ہیں ایک تو یہ کہ ایسا کرنے کے لیے ہمیں ہزاروں کلومیٹر پر مشتمل سسٹم کو اَزسرِ نو بچھانا پڑے گا۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو متبادل نظام بنانے کے لیے حکومت کو کئی ہفتوں تک بجلی بند کرنا پڑے گی کیونکہ مین سپلائی لائنز کی تعداد اور صلاحیت بہت کم ہے اور ہماری زیادہ بجلی ہائیڈل پاور جنریشن سے پیدا ہوتی ہے ۔

دوسرا مسئلہ اس قسم کی اس سر نو تشکیل پر آنے والی لاگت کا ہے جو کہ اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کی متقافی ہے۔ ہمارا 40فیصد سپلائی سسٹم اب بھی وہی ہے جو کہ 60 اور 70 کی دہائیوں میں قائم کیا گیا تھا۔ ون یونٹ سے قبل واپڈا ہاؤس خیبرپختونخوا میں تھا کیونکہ ملک کی زیادہ تر پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کا مرکز یہ صوبہ تھا اور ملک کی ضرورت زیادہ تر یہاں موجود ڈیمز اور بجلی گھر پیدا کرتے تھے۔ اب بھی تقریباً 10 ہزار میگاواٹ بجلی خیبر پختونخوا میں پیدا ہوتی ہے جو کہ قیمت کے لحاظ سے حیرت انگیز طور پر بہت سستی ہے اور ایک سروے کے دوران 2009-10 میں بتایا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا کی چھوٹی دریاؤں پر انتہائی کم لاگت سے تقریباً 45 ہزار میگاواٹ کی بجلی بہت کم وقت میں پیدا کی جا سکتی ہے۔ بدقسمتی سےون یونٹ کے خاتمے کے باوجود واپڈا ہاؤس اور سینٹرل پاور سسٹم لاہور اور اسلام آباد میں رکھے گئے جس سے بہت سی تکنیکی مسائل پیدا ہوگئے حالانکہ 2005 اور اس کے بعد 2009-10 کے دوران ایم ایم اے اور اے این پی کی صوبائی حکومتوں نے وفاقی حکومت سے رسمی طور پر مطالبہ کیا کہ نیشنل گریڈ اسٹیشن اور واپڈا ہاؤس کو ماضی کی طرح خیبرپختونخوا منتقل کیا جائے مگر ان مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

دوسرا مسئلہ شہروں میں موجود بڑے گریٹ سٹیشنز کی کمی اور ان میں جدید نظام کے فقدان کا ہے تربیلا ، ورسک ملاکنڈ، غازی بروتھا اور منگلا جنریشن پلانٹ سے مختلف شہروں کو جو بجلی سپلائی ہوتی ہے وہ ان گریڈاسٹیشن میں سٹور کی جاتی ہے جس کے بعد شہروں کو ان کی ضرورت کے مطابق سپلائی کی جاتی ہے۔ یہ اسٹیشنز درکار صلاحیتوں اور ٹیکنالوجی سے محروم ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جب بھی لوڈ بڑھ جاتی ہے یہ کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔

تیسرا مسئلہ کوئلے اور تیل سے پیدا کرنے والے اُن پراجیکٹس کا ہے جہاں نہ صرف یہ کہ بہت مہنگی بجلی پیدا کی جارہی ہے بلکہ بعض تکنیکی مسائل کے باعث بہت سے اور مشکلات بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس قسم کی صورتحال سے نکلنا وقت کا تقاضہ ہے کیونکہ پاکستان کی آبادی جس رفتار سے شہروں میں منتقل ہورہی ہے اس کے بعد بجلی کی کھپت اور ضرورت نہ صرف یہ کہ بہت بڑھ گئی ہے بلکہ روزمرہ زندگی کی بہت سے ضروریات اور چیزیں اب بجلی پر انحصار کرتی ہے اور اس نوعیت کی بریک ڈاؤن سے پوری زندگی رُک سی جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ واپڈا کا قبلہ درست کر کے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے علاوہ سپلائی اور سٹوریج سسٹم سمیت ڈسٹریبیوشن کے نظام کو جدید سہولیات کے ذریعے اپڈیٹ کیا جائے اور یہ کام فوری طور پر کیا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket