Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, March 28, 2024

افغانستان کی نئی صورتحال اور ولی مسعود کا دورہ پاکستان

افغانستان میں امن کے امکانات بوجہ دن بدن کم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور خدشہ یہ ہے کہ اگر امریکہ کی نئی انتظامیہ طالبان اورافغان حکومت کو نتیجہ خیز مذاکرات یا معاہدے پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوجائے گی اور ایسی حالت میں افغانستان کے علاوہ پاکستان اور دوسرے ممالک بھی متاثر ہوںگے۔

 طالبان نے حال ہی میں امریکی حکومت کو ایک تفصیلی خط یا مراسلہ بھیجا ہے جس میں امریکہ پر زوردیا گیا ہے کہ وہ گزشتہ برس ہونے والے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اسی تناظر میں نئے امریکی سیکرٹری خارجہ ٹونی بلنکن نے گزشتہ روز افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے تفصیلی ٹیلیفونک گفتگو کی جس کے بعد اپنی ایک ٹویٹ میں سیکرٹری خارجہ نے واضح کیا کہ امریکہ دوطرفہ افغان مذاکرات اور مستقل امن کے قیام تک افغانستان کا ساتھ دیتا رہے گا۔

سکریٹری خارجہ نے مکمل سیاسی مفاہمت اورمستقل سیزفائر کو افغانستان امن کے لیے ناگزیرقراردے دیا۔

تاہم بعض امریکی حکام اشارہ دے رہے ہیں کہ شاید ان کے لئے موجودہ صورتحال میں مئی تک فوجوں کا انخلا اور بعض دیگراقدامات اس وقت تک ممکن نہ ہو جب تک طالبان کی کاروائیوں میں کمی نہیں آجاتی اور سیاسی مفاہمت کا قابل عمل راستہ نہ نکل سکے۔ امریکی میڈیا کے مطابق افغان حکومت نا صرف یہ کہ بہت کمزور ہے بلکہ اس میں شامل بعض اہم لوگ بھی طالبان کے ساتھ کسی مجوزہ معاہدے کی ڈیل کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ سگار نامی امریکی تھنک ٹینک کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فورسز اور دوسرے ادارے محض اپنے دفاتراور چھاؤنیوں تک محدود ہیں جس کے باعث حکومتی رٹ اور تعمیر نو کی سرگرمیاں محدود تر ہوگئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اہم حکومتی ذمہ داران اور اداروں کوتعمیر نو سے زیادہ ذاتی مفادات کی فکر ہے جبکہ ایک روسی خبررساں ایجنسی نے لکھا ہے کہ افغان حکومت کے متعدد اہم لوگ اور بیوروکریٹس بڑی تعداد میں افغانستان چھوڑ کر باہر جا رہے ہیں دوسری طرف روسی اور امریکی میڈیا نے ہفتہ رفتہ کے دوران رپورٹ کیا  ہے کہ طالبان نے بڑے شہروں اور سرکاری املاک پر قبضہ کرنے کا مکمل پلان بنایا ہوا ہے اور صورت حال اس قدر غیر یقینی ہوگئی ہے کہ رشید دوستم  اور بعض دیگر نے ماضی کی طرح چند روزقبل سرکاری سرپرستی میں گلمجم ملیشیا کے سینکڑوں افراد کو کابل، ہرات ،مزار شریف اور متعدد دوسرے شہروں میں لانا شروع کر دیا ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق اس قسم کے اقدامات خوف اور بداعتمادی

نے اداروں کے علاوہ عوام کو بھی سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

ادھرحزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے گذشتہ روز اعلان کیا کہ اگر حکومت سیاسی مفاہمت کو عملی شکل دینے میں ناکام رہی اور فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو وہ کابل پر چڑھائی اور حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت پرمجبور ہوں گے ۔اس صورتحال میں عوام کےعلاوہ ان ممالک اور حلقوں کو سخت پریشانی اور تشویش میں مبتلا کردیا ہے جو کہ امن اور مذاکرات کے خواہاں ہیں۔

 بعض رپورٹس کے مطابق طالبان نا صرف یہ کہ امریکی انتظامیہ سے 2020 کےدوحہ معائدے کی توثیق چاہتے ہیں جبکہ ان کا یہ مطالبہ بھی شدت اختیار کرگیا ہے کہ موجودہ افغان حکومت کا خاتمہ کرکے نئی شرائط کی بنیاد پر عبوری ڈھانچہ قائم کیا جائے یہ مطالبہ یا فارمولا طالبان کے علاوہ بعض دیگر افغان رہنما اور گروپ بھی پیش کرتے آرہے ہیں تاہم غنی اوران کی حکومت اس کے لیے تیار نہیں ہیں طالبان نا صرف یہ کہ بہت پراعتماد ہیں اور جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں بلکہ ان کے وفود مختلف ممالک کے سرکاری دورے کرکے اہم حکومتی شخصیات سے مسلسل ملاقاتوں میں بھی مصروف ہیں جبکہ دوسری طرف افغان حکومت اور حکمرانوں کی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں ۔

گزشتہ روز شمالی کے اہم لیڈر اوراحمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ولی مسعود ایک اعلی سطحی وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر آئے جہاں انہوں نے دوسروں کے علاوہ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ قریشی سے بھی اہم ملاقاتیں کیں دونوں حکومتی شخصیات نے ان کو حکومت کے ان اقدامات اور کوششوں سے آگاہ کیا جو کہ مذاکرات کی کامیابی اور سیزفائر اورمستقل امن کے لیے کرتا آرہا ہے۔ اس موقع پر افغان وفد کو یقین دلایا گیا کہ پاکستان کسی مخصوص گروپ کی بجائے تمام افغان لیڈروں اوروعوام کے ساتھ بلاامتیاز روابط اور تعلقات رکھنے کے فارمولے پر عمل پیرا ہے اور یہ کہ افغان امن افغانستان کے علاوہ پاکستان کی بھی ضرورت ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket