Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, March 29, 2024

افغانستان سے امریکی انخلاء کا اعلان اور ممکنہ خدشات

امریکہ نے بیس سال تک جنگ زدہ افغانستان میں قیام اور جنگ لڑنے کے بعد ستمبر 2021 تک فوجی انخلاء کا اعلان کردیا ہے جبکہ نیٹو نے بھی اسی کی تقلید میں فورسز نکالنے کا اعلامیہ جاری کردیا ہے۔

تاہم متحارب گروہ اور دوحہ معاہدے کے دوسرے فریق طالبان نے امریکی صدر جو بائیڈن کے انخلاء کے باضابطہ اعلان کو  تاخیری حربہ قرار دیتے ہوئے امریکہ پر وعدہ خلافی کا الزام لگا کر کہا ہے کہ جنگ کی شدت میں تیزی لائی جائے گی۔اور یہ کہ استنبول کانفرنس سے بھی بائیکاٹ کیا جائے گا طالبان دوحہ معاہدے کے مطابق یکم مئی سے قبل امریکی انخلاء چاہتے ہیں نئے صدرجوبائیڈن اوبامہ کے ساتھ نائب صدر کے عہدے پر فائز تھےاور افغانستان کے بارے میں ان کا رویہ نہ صرف یہ کہ بہت جارحانہ رہا ہے بلکہ وہ خطے کے سیاسی اور جغرافیائی حالات اور واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں صدر بنتے ہی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ معاہدے پر نظرثانی کر سکتے ہیں تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ افغانستان کے اوپر اٹھنےوالے اخراجات کی عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

وہ ماضی میں ایک مشہور زمانہ انٹرویو کے دوران یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ افغان ایک قوم اور حکمرانی کے قابل لوگ نہیں ہیں اس لئے ان کو لسانی بنیادوں پر تقسیم بھی کیا جاسکتا ہے دوسری طرف افغان طالبان نے پہلے دن سے ہی موقف اپنایا ہے کہ امریکہ معاہدے کے مطابق یکم مئی 2021 سے قبل افغان سرزمین سے مکمل فوجی انخلا کا پابند ہے اور اگر اس پر عمل نہیں کیا گیا تو طالبان معاہدے اور سیزفائر دونوں توڑنے میں حق بجانب ہوں گے۔

اسی دوران طالبان کے علاوہ بعض اہم ممالک کا بھی یہ موقف رہا کہ انخلاء کے باوجود انٹرا افغان ڈائیلاگ کی کامیابی کے لیے تجویز کردہ عبوری حکومت کا قیام ضروری ہے اس ضمن میں ڈاکٹر اشرف غنی مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں مگر کچھ ہفتے قبل انہوں نے بھی نرمی دکھاتے ہوئے گرین سگنل دے دیا اب صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ اگر طالبان اور امریکہ یکم مئی اور ستمبر کی ڈیٹ لائنز پر ڈٹے رہےاور ان کے درمیان کوئی تیسرا راستہ نہیں نکل آیا تو حالات خراب ہو جائیں گے اور انٹرا افغان ڈائیلاگ تو دور کی بات دوحہ معاہدہ کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا ۔

تجزیہ کار اس نئی صورتحال کو بہت تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور طالبان کے سخت گیر رویہ اور موئقف کو مجوزہ مذاکراتی عمل کے لئے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket