Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, March 28, 2024

ء2020 میں سیکورٹی کی صورتحال اور ئنے سال کے چیلنجز

طویل انتظار، رکاوٹوں اور مبینہ سازشوں کے بعد قطر کے شہر دوہا میں انٹرا افغان ڈائیلاگ کا ایک بار پھر آغاز ہو چکا ہے اور فریقین مجوزہ روڑمیپ اور بنیادی نکات پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں 5 جنوری کو مذاکراتی ٹیموں کا رسمی اجلاس ہوا جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ تشدد، حملوں اور کارروائیوں میں کمی لانے کی بعض شرائط ہر بات چیت کی گئی۔ اگرچہ طالبان کے بعض اہم لیڈروں کا موقف یہی رہا ہے کہ کسی باقاعدہ معاہدے کے قبل سیز فائر کا کوئی امکان اور جواز نہیں ہے، تاہم امریکہ ، پاکستان اور افغان حکومت کی کوشش اور اصرار ہے کہ کسی مثبت یا حتمی نتیجے تک پہنچنے تک لازمی ہے کہ طالبان جنگ بندی کا اعلان کریں۔

اس ضمن میں نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے 4 جنوری کو راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کیں جبکہ اگلےروز وہ قابل پہنچے جہاں مجوزہ مذاکراتی عمل کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا اور دونوں ممالک کے اعلی حکام کو امریکہ کے ارادوں اور طریقہ کار سے  آگاہ کیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق  زلمے خلیل زاد نے یقین دہانی کروائی کہ امریکہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود افغانستان سے انخلاء کی اپنی پالیسی پر عمل پیرا رہے گا۔ اور یہ کہ طالبان کے ساتھ فروری 2020 میں ہونے والے معاہدے پر عمل کیا جائیگا۔

دوسری طرف طالبان کے بعض لیڈروں نے دعوی کیا ہے کہ افغان حکومت میں شامل اکثر اہم عہدیدران  نےان کے ساتھ کیے گئے رابطوں میں ان کو یقین دہانی کروائی ہے کہ  اگر طالبان اقتدار میں آتے ہیں تو وہ ان کی حمایت کریں گے کیونکہ اشرف غنی کی حکومت میں شامل اکثر وزراء اور فوجی افسران ماضی میں مختلف جہادی گروپوں سے وابستہ رہے ہیں۔

ایک امریکی تھنک ٹینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سال 2020ء افغانستان کی حالیہ تاریخ اور لڑائی کا بدترین  اور خون ریزسال ثابت ہوا ہے جس کے دوران طالبان اور داعش نے کابل سمیت پورے ملک میں سینکڑوں حملے کروائے اور حکومت بے بس نظر آئی۔

ادھر افغان کشیدگی سے پاکستان کے دو صوبے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان بھی سال 2020  کے دوران بہت متاثر ہوئے  اور اب یہاں داعش کی موجودگی کی اطلاعات نے بھی پاکستان کے متعلقہ اداروں کو الرٹ کر دیا ہے۔

معتبر تھنک ٹینک پی آئی پی ایس (پی ائی پی ایس) کی سکیورٹی رپورٹ برائے سال 2020 میں کہا گیا ہے کہ اس برس خیبر پختونخواہ کے ضم شدہ اضلاع میں نہ صرف یہ کہ حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ٹی ٹی پی کی ری گروپنگ کا عمل بھی تیز ہوا ہے۔ پرورٹ کے مطابق اس برس پاکستان میں 145 دہشت گرد حملے کرائے گئے جن میں 80 حملوں کے دوران کے پی کے کے ضم شدہ اضلاع کو نشانہ بنایا گیا۔  رپورٹ کے مطابق ان میں تین خود کش حملوں سمیت القاعدہ کے 10 حملے بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ  2020 میں پاکستان پر ہونےوالے حملوں میں سے 16 کی پلاننگ افغانستان  جبکہ 100 سے زائد کی بھارت میں کی گئی تھی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سال گذشتہ کے دوران بلوچستان  اور خیبر پختونخواہ میں مزاحمتی قوم پرست گروپس بھی نہ صرف بہت فعال رہے بلکہ  بلوچستان میں زیادہ تر حملے علیحد گی  پسند گروپوں نے ہی کروائے۔

اگرچہ پی آئی پی ایس کی سیکورٹی  رپورٹ میں موازنہ کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ 2019 کے مقابلے میں 2020 میں سیکورٹی  کی صورتحال مقابلتا بہتر رہی ہے مگر  مجموعی حالات کو داعش، ٹی ٹی پی اور علیحدگی  پسندوں کی  مجوزہ پلاننگ اور عزائم کے تناظر میں پاکستان کو سال 2021 میں متعدد سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کوئٹہ میں 12 کارکنوں کی داعش کے ہاتھوں دردناک ہلاکت اور اس سے قبل پشاور میں ایک مدرسے میں اتنے ہی بچوں کی شہادت اور اس میں داعش کے ملوث ہونے کی اطلاعات جیسے واقعات کے علاوہ ٹی ٹی پی کی نئی صف بندی اور بعض بیرونی سرگرمیاں وہ عوامل ہیں جن کی بنیاد پر یقینی خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ چند ماہ پاکستان اور خطے کے لیے نہایت اہم ہو سکتے ہیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket