Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, March 29, 2024

پشتون قوم پرستی اور افغانستان پر سعد اللہ جان برق سے مکالمہ

ممتاز صحافی تجزیہ کار محقق اور چالیس کتابوں کے مصنف سعد اللہ جان برق کے مطابق افغانستان پر ہر دور میں غیر پشتون اقلیتوں کا کنٹرول رہا ہے حالانکہ ملک کی اکثریتی آبادی پشتونوں کی ہے تاہم ان کا کردار اور اختیار علامتی رہا ہے اور پشتو زبان کو بوجوہ اس ملک میں پسماندگی کی علامت سمجھا جاتا رہا افغانستان کے مقابلے میں پاکستان کے پشتون زیادہ باشعور فعال اور ترقی پسند واقع ہوئے ہیں۔

وائس آف کے پی کے ساتھ خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پشتونستان کے شوشے  اور برائے نام نعرے نے پاکستان  کےپشتونوں کو سیاسی ا،دبی اور ثقافتی سطح پر بہت نقصان پہنچایا ہے ۔اس تحریک کی عملاً کوئی بنیاد ہی نہیں تھی اور اس نعرے کو بعض افغان حکمران ، دانشور اور پاکستان کے قوم پرست دباؤ پر مبنی ایک حربے کے طور پر استعمال کرتے رہے ۔پاکستان کے پشتون بعض شکایات اور تحفظات کے باوجود بھی کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ افغانستان کے شہری بن جائیں اور نہ ہی افغان ایسا چاہیں گے۔

 ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کبھی بھی پاکستانی پشتونوں کے ساتھ مخلص نہیں رہی ہے ۔تلخ حقیقت تو یہ رہی ہیں کہ افغان حکمران اپنے پشتونوں،  ان کی زبان اور اقتدار کے ساتھ بھی مخلص نہیں رہے ۔ ان کے مطابق افغانستان کے ایک سابق وزیراعظم ہاشم میوند وال نے رقوم بیچ کر پاکستان کے پشتون دانشوروں کے لئے منفی پروپیگنڈا کر کے ان کے لیے مشکلات پیدا کیں حالانکہ ان کا اپنا کردار یہ رہا کہ جب وہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے دوسروں کے علاوہ فخر افغان باچا خان کے ساتھ بھی توہین آمیز رویہ اپنایا جبکہ یہ بات بھی کارڈ پر ہیں کہ ایک افغان حکمران نے ایک دانشور ننگ یوسفزئی کے ہاتھوں ولی خان اور انکی پارٹی نیپ کو ایک الیکشن میں ہرانے کے لیے تیس لاکھ افغانی بھیجے تھے۔

 جناب برق نے مزید کہا کہ عملی طور پر پشتونستان یا گریٹر افغانستان کے قیام کی نہ تو کبھی بنیاد رہی ہے نہ کوئی عوامی تحریک چلی ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس قسم کے کسی فارمولے یا تجربے کا کوئی امکان پایا جاتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان افغانیوں کا وطن ہے پشتونوں کا نہیں۔لروبر کا نعرہ لگانے والے ان نان پشتون رہنما ءاور طبقوں کی آراءبھی قوم کو بتائیں جو کہ ہر دور میں افغانستان میں نہ صرف یہ کہ عملی حکمران رہے ہیں بلکہ انہوں نے ہر دور میں فارسی یا درّی کو پشتو پر فوقیت دے کر پشتو کو پسماندہ زبان قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس  رویے کے باعث افغانستان کے پشتو ن احساس محرومی اور احساس کمتری کا شکار رہے ۔

سعد اللہ جان برق کے بقول حقیقی قوم پرست لیڈر باچا خان کو تقسیم ہند کے دوران ایک بار انکے اتحادی کانگرس نے دھوکہ دے کر مایوس کیا تو ان کے ساتھ یہی رویہ متعدد بار افغان حکمرانوں نے بھی  اپنایا۔ افغانستان کی طرف سے نہ تو پشتونوں کے لیے سنجیدگی سے ماضی میں کچھ اچھا ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ کچھ ہونے والا ہے اس لئے بہتر یہ ہے کہ پشتون خیالی دنیا سے جتنی جلد ہوسکے باہر نکل کر زمینی حقائق کا ادراک کریں ۔ جناب برق کے مطابق ایک سوال تو یہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ جب احمد شاہ ابدالی اس ملک کا نام افغانستان رک رہے تو انہوں نے اس زمانے کے حالات کو مدنظر رکھ کر اس کا نام پشتونستان یا پختونخواہ کیوں نہیں رکھا حالانکہ ان کے ایک شعر کا مفہوم یہ ہے کہ وہ دہلی کا تخت بھول جاتے ہیں جب ان کو پختون خواہ کے پہاڑ یاد آ جاتے ہیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ فارسی یا درّی کو شعوری طور پر اشرافیہ اور سرکاری زبان بنانے سمیت ہر دور میں فروغ دے کر پشتو اور اردو دونوں پر مسلط کیا گیا اور حالت یہ رہی کہ جب افغان جہاد کے دوران  دو تین فیصد فارسی بان پشاور آئے تو انہوں نے کوشش کی کہ اس زبان کو یہاں بھی فروغ دے اور شہر کے اکثر دکاندار اس کوشش کی زد میں بھی آگئے۔

 ان کے مطابق اے این پی اور بعض دیگر جماعتیں بھی افغانستان اور پشتونستان کو پولیٹیکل کارڈ کے طور پر استعمال کرتی آئی ہیں حالانکہ یہ حقیقت ان کو بھی معلوم ہے کہ زمینی حقائق ان کی خواہشات اور نعروں کے برعکس ہیں اور پاکستان کے پشتون بہت سے شعبوں میں افغان پشتونوں سے آگے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اے این پی  جب صوبہ خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار آئی تو اس پارٹی نےحقیقی دانشوروں کی بجائے  ان عناصر کو نوازا جو کہ باچا خان اور ولی خان کے مخالف رہے تھے اور جن کا ان کی تحریک یا قوم پرستی کے ساتھ کوئی ہمدردی یا وابستگی بھی نہیں تھی۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket