Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, March 29, 2024

پولیس لائنز خودکش حملہ ؛کب کیا ہوا؟

پولیس لائنز خودکش حملہ ؛کب کیا ہوا؟

تحریر: محمد رضا شاہ

ملک سعد شہید پولیس لائنزپشاورکی مسجد میں ہونے والے دھماکہ میں 100 نمازی شہید جبکہ زخمیوں کی تعداد 221کے قریب ہوگئی۔ معمولی زخمیوں کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا جبکہ میتوں کو لواحقین کے حوالے کیا جا رہا ہے۔دھماکا سوموار کی دوپہرایک بج کر 15 منٹ پر اس وقت ہوا جب نمازِظہرادا کی جا رہی تھی۔دھماکے کی شدت بہت زیادہ تھی جس مسجد کی دو منزلہ عمارت گر گئی،سکیورٹی حکام کے مطابق مبینہ خودکش حملہ آور مسجد کی پہلی صف میں موجود تھا۔ دھماکے کے وقت مسجد میں 400پولیس اہلکار موجود تھے، خود کش دھماکے کے شہداء میں ڈی ایس پی عرب نواز، 5 سب انسپکٹرز، مسجد کے پیش امام اور ملحقہ پولیس کوارٹر کی رہائشی خاتون بھی شامل ہیں۔

پشاور دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم کو پیش

پشاور پولیس لائنز میں دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی گئی۔ سی ٹی ڈی نے تمام سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کر لیں، پشاور پولیس لائن دھماکے کا واقعہ سکیورٹی غفلت قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جائے وقوعہ سے خودکش حملے کے شواہد ملے ہیں، دھماکے کے بعد مسجد کے پلر گرنے سے چھت گری جس سے نقصان زیادہ ہوا، ملبہ ہٹانے کے بعد بارودی مواد کا پتہ چلے گا، پولیس لائن میں تمام اہلکاروں کا حاضری ریکارڈ تحویل میں لے لیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق سکیورٹی لیپس کے حوالے سے اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے، پولیس لائن گیٹ، فیملی کوارٹرز سائیڈ کی سی سی ٹی وی فوٹیجزپر تحقیقات جاری ہیں۔

وزیراعظم اور آرمی چیف کی پشاور آمد، ہنگامی اجلاس

پشاور پولیس لائنز میں مبینہ خودکش حملہ کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر پشاور پہنچے جہاں انہوں نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا دورہ کیا اور پشاور پولیس لائنز کے زخمیوں کی عیادت کی۔ وزیراعظم نے واقعے پر ہنگامی اجلاس اور تمام متعلقہ اداروں کے حکام کو طلب کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کو پولیس لائنز میں خود کش حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دکھائی گئی، شرکاء نے پولیس لائنز حملے میں شہید ہونے والوں کے لئے فاتحہ خوانی کی اور متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔

پشاور دھماکہ، خیبرپختونخوا میں ایک روزہ سوگ کا اعلان

نگراں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان نے پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے دھماکے کے شہدا کی یاد میں صوبہ بھر میں ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔اس سلسلے میں آج صوبہ بھر میں سرکاری سطح پر آج ایک روزہ سوگ منایا جایا رہا ہے۔سوگ کے تحت آج پورے صوبے میں قومی پرچم سرنگوں ہے۔

پولیس لائنز، ایک محفوظ سمجھا جانے والا علاقہ

پولیس لائنز پشاور 120 سال پہلے 600 جوانوں کے لیے بنائی گئی تھی جہاں آج 2 ہزار سے زائد پولیس اہلکار اور 8 مختلف محکمے ہیں، پولیس لائن کا علاقہ انتہائی حساس ہے اور یہاں پولیس افسران و سکیورٹی انتظامیہ کے دفاتر اور اہلکاروں کی رہائش گاہیں ہیں۔ پولیس لائن سے ملحقہ شاہراہ سے ایک راستہ وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کی جانب جاتا ہے جبکہ اس کے دائیں جانب سول سیکریٹریٹ کی عمارت موجود ہے۔ پولیس لائن کے عقبی جانب پشاور کی سینٹرل جیل واقع ہے۔ اہم دفاتر اور مقامات کی وجہ سے عوام اور سائلین کی ایک بہت بڑی تعداد کا روزانہ آنا جانا ہوتا ہے۔

خود کش حملہ آور حساس علاقے میں کیسے آیا؟

سی سی پی او پشاور محمد اعجاز خان نے کہا کہ دھماکہ بظاہر خودکش حملہ لگتا ہے، جائے وقوعہ سے مبینہ خودکش حملہ آور کا سر بھی ملا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریسکیو آپریشن مکمل ہونے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ دھماکہ کس نوعیت کا تھا، ہوسکتا ہے کہ حملہ آور پہلے سے ہی پولیس لائنز میں موجود ہو۔ پولیس لائنز میں ایف آر پی، ایس ایس یو، ایلیٹ فورس، سی ٹی ڈی سمیت 8 سے زیادہ یونٹس کے دفاتر ہیں، یومیہ 1500 سے 2 ہزار اہلکار پولیس لائنز آتے اور جاتے ہیں۔ یہ بھی امکان ہے حملہ آور کسی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر آیا ہو۔

ٹی ٹی پی نے پشاور خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی:

تحریک طالبان پاکستان( ٹی ٹی پی ) خراسانی گروپ کے عہدیدار سربکف مہمند اور عمر مکرم خراسانی نے سوشل میڈیا پر پشاور خود کش دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ خود کش دھماکہ ہم نے کیا ہے اور یہ دھماکہ ٹی ٹی پی کے کمانڈر خالد خراسانی کی گزشتہ سال ہلاکت کا ’بدلہ‘ تھا۔تاہم رات گئے ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔محمد خراسانی کے اس بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ٹی ٹی پی کے ایک کمانڈر نے اس دھماکے کی زمہ داری کیوں قبول کی تھی۔

پشاور میں مساجد، عبادتگاہوں پر حملوں کی تاریخ

شہر کی تاریخ میں ہونے والا پہلا خود کش دھماکہ 27جنوری 2007 کو پشاور کی ایک مسجد میں ہوا جسمیں پشاور سٹی پولیس کے سربراہ ملک سعد سمیت کم از کم 13 افراد جانبحق ہو گئے۔17جنوری 2008 کو پشاور میں مرزا قاسم بیگ امام بارگاہ میں ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جس کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد شہید ہو گئے تھے۔27مارچ 2009 کو جمرود میں پشاور طورخم ہائی وے پر ایک مسجد پر جمعہ کے اجتماع کے دوران بظاہر خودکش حملے میں کم از کم 76 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔5 نومبر 2010 کو درہ آدم خیل کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش بم دھماکے میں 72 سے زائد افراد ہلاک اور 100 کے قریب زخمی ہوئے۔9مارچ 2013 کو پشاور کی ایک مسجد میں دھماکے میں چار افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ 13 فروری 2015 کو پشاور کی امامیہ مسجد میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں کم از کم 19 افراد ہلاک ہو گئے اور 4 مارچ 2022 کو قصہ خوانی بازار میں ایک شیعہ مسجد کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 65 افراد جاں بحق ہوئے۔

خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں

پشاور پولیس لائن مسجد پر حملے سے ایک دن پہلے انٹیلی جنس ایجنسیوں ،سکیورٹی فورسز نے خود کش حملہ آوروں کے بڑے نیٹ ورک کو پکڑا۔ موصول اطلاعات کے مطابق کاروائی کے دوران دہشت گردوں کے خود کش حملوں کے نیٹ ورک سے افغان موبائل سمز، منشیات اور کرنسی بھی برآمد ہوئی ہے ،زرائع کے مطابق سیکورٹی فورسسز نے جنوری کے مہینے میں خیبر پختونخوا میں 9 کاروائیوں میں 30 سے زائد شدت پسند ہلاک جبکہ 10 دہشتگردوں کو گرفتار کیا ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ مارے گئے دہشتگردوں کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ بھی برآمد ہوا۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket