Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, March 28, 2024

فرزند پشاور یوسف خان کا سفر آخرت اور یادیں

برصغیر کے عظیم فنکار اور ممتاز شخصیت دلیپ کمار گزشتہ روز طویل علالت کے باعث بھارت کے شہر ممبئی میں 98 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو ممبئی ہی میں نامور شخصیات کی موجودگی میں حکومتی پروٹوکول اور اعزاز کیساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ یو فن اداکاری کے ایک ایسے عہد کا اختتام ہوا جس نے بھارت تو کیا پوری دنیا میں نئے ٹرینڈز متعارف کروا کر مرتے دم تک اپنی انفرادیت، شناخت اور وقار کو قائم رکھا وہ وقار جو بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔

یوسف خان المعروف دلیپ کمار کے انتقال کی خبر کو عالمی میڈیا نے جس پروٹوکول اور اہتمام کے ساتھ نشر کیا وہ اپنی مثال آپ تھی۔ تاہم بار بار جب ان کے ساتھ پشاور کا نام لیا گیا تو لمبے عرصے کے بعد عالمی میڈیا کے سکرینوں اور صفحات پر ایک اچھا ذکر سن کر خیبر پختونخواہ کے عوام فخر محسوس کرتے گئے۔ وہ 11 دسمبر 1922 کو پشاور کے محلہ خداداد میں پیدا ہوئے اور یہیں پر ان کا بچپن گزرا جس کا وہ بار بار ذکر کرتے رہے۔ 1935 میں جب وہ والد اور فیملی کے دوسرے افراد کے ہمراہ ممبئی چلے گئے جہاں وہ فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے ان کی پہلی فلم جوار بھاٹا 1940 میں ریلیز ہوئی جس کے بعد انھوں نے سال 1998 کی اپنی آخری فلم قلعے تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور وہ نہ صرف خطے اور دنیا کے عظیم اور مقبول سپر سٹار کہلائے جانے لگے بلکہ وہ ایک اکیڈمی کی حیثیت اختیار کر گئے جن پر دوسروں کے علاوہ پشاور پختونخوا کے عوام ہر دور میں فخر کرتے پائے گئے، کیونکہ پشاور کے ساتھ دلیپ کمار کی محبت اور وابستگی اپنی مثال آپ تھی اور آخری دم تک وہ پشاور اور یہاں کے عوام کے ساتھ جڑے رہے حالانکہ ان کو آفاقی اور عالمی شہرت حاصل رہی۔

دلیپ کمار تین بار پاکستان آئے جس کے دوران دو بار انہوں نے پشاور کا دورہ کیا۔ پہلی بار وہ 1988 میں پشاور آئے تو انہوں نے مختلف تقریبات میں شرکت کے علاوہ قلعہ بالا حصار اور قصہ خوانی بازار سمیت دوسرے اہم مقامات کی اپنی اہلیہ سائرہ بانو کے ساتھ سیر بھی کی۔ جبکہ دوسری بار وہ 1998 کو آئے۔ اسی برس ان کو حکومت پاکستان نے اعلیٰ سول اعزاز نشان امتیاز سے بھی نوازا۔ انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ میں بھی حصہ لیا جس کا ذکر وزیراعظم عمران خان نے اپنے تعزیتی بیان میں بطور خاص جبکہ تمام حکومتی اور سیاسی قائدین نے بھی ان کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔

جس کو بھارتی میڈیا نے بھی نمایاں طور پر نشر کیا اور چھاپا۔ عالمی سطح پر ان کی وجہ سے پشاور کا جس انداز میں ذکر سامنے آیا اس نے اس شہر کو انمول بنا دیا۔

ان کے قریبی رشتہ دار اور پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر محسن عزیز کے مطابق دلیپ کمار کو پشاور اور یہاں کے عوام سے بے پناہ محبت تھی وہ رشتہ داروں کے ساتھ نہ صرف رشتہ داری نبھاتے تھے بلکہ جب ہم بھارت جایا کرتے تھے تو ان کے مہمان بنتے جس سے ان کو بہت خوشی ملتی تھی۔ ان کے مطابق وہ انتہائی درجہ کے باعلم، سنجیدہ اور باشعور انسان تھے۔ تاہم اپنے رشتہ داروں اور پشاور کے ساتھ ان کی وابستگی نے ان کو اور بھی عظیم بنا دیا تھا۔

دلیپ کمار کے ساتھ کئی ملاقاتیں کرنے اور قریبی روابط رکھنے والے شکیل وحیداللہ خان کے مطابق وہ جب بھی ان سے ملے انہوں نے انہیں پشاور کے بارے میں غیر معمولی دلچسپی لیتے پایا۔ ان کے مطابق جب ہم پشاور میں دلیپ صاحب کی سالگرہ پر تقریب کا اہتمام کرتے تو وہ اور سائرہ بانو اس پر بے حد خوش ہوتے بلکہ متعدد بار انہوں نے شرکاء کو ٹیلی فونک رابطے کے ذریعے مخاطب بھی کیا۔ شکیل وحیداللہ نے مزید بتایا کہ کچھ عرصہ قبل جب سیول سوسائٹی، میڈیا اور حکومت کی کوششوں سے پشاور میں دلیپ کمار اور راج کپور کی رہائش گاہوں کو قومی ورثہ قرار دیا گیا تو یہ خبر سائرہ بانو کے ذریعے ان تک پہنچائی گئی جس پر انہوں نے بیماری کے باوجود بہت خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کیونکہ دلیپ صاحب کی شدید خواہش تھی کہ ان کے آبائی گھر کو محفوظ کیا جائے۔

یہ امر بہت خوش آئند ہے کہ صوبائی حکومت نے محلہ خداداد پشاور میں موجود
جناب دلیپ کمار کے گھر کو قومی ورثا قرار دیا ہے۔ یہ نہ صرف اس عزم کا اظہار ہے کہ ہم اپنے ہیروز کی قدر اور عزت کرتے ہیں بلکہ ان سے وابستہ چیزوں اور یادوں کو محفوظ کرکے اپنی عظمت رفتہ کو اپنی نئی نسلوں کو بھی منتقل کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ہماری شناخت بہت منفرد رہی ہے۔

ڈائریکٹر آرکیالوجی میوزیمز ڈاکٹر عبدالصمد کے مطابق دلیپ کمار اور راج کپور کی رہائش گاہوں کو سرکاری تحویل میں لے کر قومی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے اور ان تاریخی گھروں کی آرائش و زیبائش کا کام بہت جلد شروع ہو گا۔ ان کے مطابق بعض دوسرے تاریخی مقامات کی طرح ان گھروں کو بھی ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے مشاہدے کے لیے کھول دیا جائے گا تاکہ دنیا کو یہ معلوم ہوسکے کہ یہ مٹی کتنی زرخیز ہے اور اس مٹی نے ہر شعبے میں کتنے با کمال لوگ پیدا کیے ہیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket