Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, April 24, 2024

سینیٹ کا شفاف الیکشن سب کیلئے بڑا امتحان

سینیٹ کے انتخابات کے لیے مختلف پارٹیوں نے اپنے امیدواروں کا اعلان کردیا ہے جبکہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان نے بعض امیدواروں کی نامزدگی پر مقامی تنظیموں میڈیا رپورٹس اور کارکنوں کے اعتراضات کا نوٹس لیکر ایسے امیدواروں کے نام پرنظرثانی کا اعلان کرکے واضح کر دیا ہےکہ کسی بھی پیراشوٹرکو ٹکٹ نہیں دیا جائے۔ طریقہ کارکے مطابق تین مارچ کوپانچوں اسمبلیوں میں پولنگ کی جائے گی۔اوراسی روزکامیاب سینیٹرز کا اعلان کیا جائے گا۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے سینکڑوں ایم این اے اور ایم پی اے اپنے اپنے امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔ اب کی بار 48 سینیٹرزکا انتخاب عمل میں لایا جائے گا اس مقصد کے لئے 16 فروری کو جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق ان 48 نشستوں کے لئے کل 170 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں ۔سب سے زیادہ امیدوار تحریک انصاف کے ہیں کیونکہ قومی اسمبلی اور پنجاب، پختونخواہ کی اسمبلیوں میں اس پارٹی کے ارکان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ (ن) اور تیسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی تعداد ہے۔

حسب معمول آزاد ارکان کی کافی تعداد بھی میدان میں ہے جہاں تک خیبرپختونخواہ کا تعلق ہے یہاں پر 12 نشستوں کے لیے مختلف پارٹیوں کے 51 امیدوارمیدان میں ہیں جن میں چار آزاد امیدوار، اقلیتی رہنما اور خواتین بھی شامل ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں سب سے زیادہ امیدوار تحریک انصاف ہی کے ہیں کیونکہ کے پی اسمبلی میں اس پارٹی کو غیر معمولی اکثریت حاصل ہے اورارکان کی تعداد 90 سے زائد ہے۔ جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق تحریک انصاف کے دس امیدوارمیدان میں ہیں جن میں شبلی فراز، ثانیہ نشتر، محسن عزیز بھی شامل ہیں جبکہ دیگر امیدواروں میں سے بعض کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پارٹی کے اندر سے مخالفانہ آوازیں اٹھنے اور شکایت ملنے کے باعث دو یا تین اعلان کردہ امیدواروں کی
تبدیلی متوقع ہے۔

رپورٹس کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ٹکٹوں کے معاملے پر بعض اختلافات اور شکایات کا خود نوٹس لے کر نہ صرف سینئر لیڈرز سے مشاورت کی بلکہ گورنر شاہ فرمان اور وزیراعلی محمود خان کو بھی مشاورت اور عمل طے کرنے کے لیے خصوصی طور پر اسلام آباد طلب کیا تاکہ 2018 کی طرح بعض ممبران اسمبلی کو ووٹ بیچنے کے مجوزہ فیصلے سے روکا جا سکے۔ سال 2018 کے الیکشن میں ووٹ بیچنے کی اطلاعات نے جہاں صوبے اور حکمران جماعت کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا تھا وہاں عمران خان نے کے پی اسمبلی کہ اپنے بیس ممبران کے خلاف کاروائی کرکے ان کو پارٹی سے بھی نکال دیا تھا۔ تین مارچ کے سینیٹ الیکشن کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی( باپ) کے تین امیدواروں سمیت چار آزاد امیدواروں نے بھی انٹری ماری ہے جبکہ مسلم لیگ نون نے خیبرپختونخواہ سے 3 ، اے این پی نے 4، پیپلز پارٹی نے3، جماعت اسلامی نے 4 جبکہ جے یو آئی نے بھی چار امیدوارمیدان میں اتار لئیے ہیں حالانکہ اسمبلی میں اگران پارٹیوں کی مجموعی عددی اکثریت کو دیکھا جائے تو جنرل سیٹوں پر ان سب کے حصے میں چار یا پانچ نشستیں آسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز پی ڈی ایم کا ایک صوبائی اجلاس پشاور میں منعقد ہوا جس کا مقصد مشترکہ امیدوار لانے کا لائحہ عمل طے کرنا تھا مگر ابتدائی طور پر فریقین حتمی فیصلے یا فارمولے پر نہیں پہنچے۔

اے این پی کی سابق صوبائی وزیر اور سینیٹرستارہ ایاز نےغیر متوقع طور پر بلوچستان عوامی پارٹی میں سینٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے کی غرض سے شمولیت اختیار کرلی ہے اور یوں زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ بلوچستان سے سینیٹر بن جائیں گی اس فیصلے پر ان کو سوشل میڈیا اورعوامی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ اگراب کی بار سینیٹ الیکشن میں 2018 کی طرح پیسہ نہیں چلا تو قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آ جائے گی اوراس کے نئے سینیٹرز کی تعداد 20 سے 25 کے درمیان ہو سکتی ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ممبران اسمبلی کو ہارس ٹریڈنگ سے بچا کر رکھا جائے اور اس الیکشن کو پیسے اور دباؤ سے دور رکھا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket