Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, April 20, 2024

امن برائے فروخت

یہ ایک فیشن بن چکا ہے کہ اگر آپ نے مشہور ہونا ہے یا توجہ حاصل کرنی ہے تو مذہب اور ریاست کو یکطرفہ اور غیر ضروری تنقید کا نشانہ بنانے کا آسان نسخہ آزمائیں اور اس کام کے لیے آپ کو محنت کی بجائے محض نام نہاد سوشل میڈیا کا استعمال آتا ہو۔ اس کے علاوہ آپ  کوانسانی حقوق، نسل پرستی اور قوم پرستی کا روایتی طریقہ بھی مقبول بنا سکتے ہیں۔دوسرے مرحلے میں آپ کسی بیرونی ادارے کی فنڈنگ سے کسی بڑے ہوٹل میں ان موضوعات پر چند افراد کو جمع کرکے ان شعبوں کے ماہر یا چمپئین بن سکتے ہیں ۔سن 70 اور 80 کی دہائی میں یہ مخصوص لوگ بھارت اور سوویت یونین کے ترانے گایا کرتے تھے بازی پلٹ گئی اور سوشلسٹ بلاک کمزور ہوا تو انہوں نے دیر لگائے بغیر انسانی حقوق کے نام پر این جی اوز کی آڑ میں امریکی اور مغربی بلاک کے ترانے گانے شروع کیئے کہ کام وہی پرانا تھا مگر سمت اور نظریات نے مخالف طرف سفر شروع کیا جب 90 کی دہائی میں افغانستان اور پاکستان میں طالبان نامی قوت کا ظہور ہوا تو ان کے کاروبار میں مزید وسعت اور برکت آگئی امن کا سودا فروخت کیلئے رکھا گیا جو دھڑا دھڑ بکنے لگا ساتھ میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا تڑکا بھی لگایا گیا تورزق اور شہرت میں مزید اضافہ ہونے لگا۔

اسی دوران امریکی فورسز نے افغانستان جبکہ پاکستانی فورسز نے یہاں کارروائیاں شروع کیں تو امریکہ زندہ باد کے نعرے لگائے  مگریہاں مردہ باد نعرے لگے حالانکہ مسئلہ کی نوعیت ایک جیسی تھی مگر ان کے ہاں ردعمل کے پیمانے الگ تھے۔تھنک ٹینکس اور این جی اوز کا میلہ لگ گیا دونوں نے ایک طریقہ یہ اپنایا کہ جس این جی او یا تھنک ٹینک کی سربراہی کسی فیشن ایبل عورت کے ہاتھ میں ہو گی وہ زیادہ خدمات سر انجام دے پائیں گی۔ کام شروع ہونے لگے کسی نے غیرت کے نام پر قتل کے معاملے کو انسانی حقوق کے لیے خطرہ قرار دیا تو کسی نے تیزاب پھینکنے کے واقعات کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا آخر میں جب کچھ باقی نہیں رہا تو تیسری جنس یا شیمیلزکے حقوق کے نام پر لاتعداد این جی اوز قائم کی گئیں۔ ہر برس ان خدائی خدمت گاروں کو نہ صرف کروڑوں کی فنڈنگ ہوتی رہی بلکہ وہ لوگ بھی امریکہ اور یورپ جانے لگے جنہوں نے کراچی اور لاہور تک نہیں دیکھا تھا بلکہ اکثریت ان کی تھی جن کو اپنے گاؤں، فیلڈ اور علاقے میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا ان کو عالمی سطح پر نیشنل ہیروز کی شکل میں پیش کیا گیا اور نوبل ایوارڈ سمیت سب میں لاتعداد ایوارڈز اور انعامات تقسیم کئے گئے کمال کی بات یہ ہے کہ جن کو یہ اعزازات ملے ان میں 95 فیصد خواتین تھیں ورنہ لسٹیں اٹھا کر دیکھیں جائیں۔ طالبان وغیرہ کے علاوہ ان خواتین و حضرات نے دوسرے مرحلے میں پاکستان کے بعض اداروں کو خصوصی طور پر فورسز کو نشانہ بنانا شروع کیا تو ایک اور دکان کھل گئی اور اہمیت میں بھی اضافہ ہونے لگا مگر عین اسی دوران نیٹو اور امریکی فورسز افغانستان میں عوام کے ساتھ جو کچھ کرتی رہیں ان معززین نے ان واقعات پر کمال کی خاموشی اختیار کرلی۔ شیشوں کے گھروں اور محل نما دفاتر میں بیٹھ کرنت نئے مفروضے اور طریقے نکالے گئےاور ہرسال تین چار غیر ملکی دورے ان کی گوناگوں مصروفیات اور خدمات کا حصہ بنتے گئے۔کام آسان اور فائدہ زیادہ تھا اس لئے مزید دکانیں کھلتی رہیں۔ انہوں نے شہداء کے نام کو خوب استعمال کرنےکا بھی اعزاز حاصل کیا اور اپنی مرضی کے مطابق شہید متعارف کروائے۔ یہ الگ بات ہے کہ عملی طورپر یہ کسی بھی شہید کے جنازے میں اظہار تعزیت کے لیے جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے رہے۔

عوامی پذیرائی یا قوت کا یہ حال رہا کہ کسی بھی احتجاجی مظاہرے یا اجتماع  میں انکی تعداد سو کا ہندسہ بھی عبور نہ کرسکی۔ عوام ان سے اور یہ عوام سے لاتعلق رہے اپنی ثقافت ،اقتدار ،مذہب اور اداروں کا مذاق اڑانا ان کے لیے لازمی قرار دیا گیا۔بعض واقعات کو بڑھاچڑھا کر چائے کی پیالی اور مخصوص گلاسوں میں انقلاب لانا ان کا محبوب مشغلہ بنا رہا۔خود مختلف حکومتی اور غیر ملکی اداروں سے  امداد لیتے رہے مگر عام شہری کے بچے یا بچی کو بغاوت یا انقلاب کے نام پر معاشرے اور ریاست کے علاوہ حصول تعلیم سے دور کرتے رہے۔ یہ کام اب بھی جاری ہے اتنی لمبی کہانی کا مقصد اس مخلوق سے ایک سوال کی جسارت کرنا تھی وہ یہ کہ اگر انتہا پسند یا ریاستی ادارے نہ ہوتے تو ان کے یہ مزے یا چرچے کہاں ہوتے ! کیا یہ اخلاقیات کے زمرے میں نہیں آتا کہ یہ لوگ طالبان اور فورسز وغیرہ کا شکریہ ادا کریں اور ساتھ میں یہ اعتراف کہ جنگ اور ہلاکتیں جاری رہیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket