Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, April 20, 2024

امریکہ اور اتحادیوں نے کیا کھویا کیا پایا؟

بعض حلقوں کی خوش فہمیوں اور خواہشات پر مبنی تبصروں کے برعکس امریکا ،نیٹو اور بعض دیگر عالمی مراکز اور مباحثوں کے دوران افغانستان میں امریکا کی 20سالہ مہم جوئی کو ویتنام کی ناکامی سے کئی گناہ بڑی شکست سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور عالمی فورمز کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں القاعدہ کو کمزور کرنے کے علاوہ اپنا کوئی بڑا ہدف پورا نہیں کیا۔ اس نکتے پر سب سے زیادہ تنقید ہو رہی ہے کہ امریکہ اور اس کے درجنوں اتحادی لامحدود وسائل اور طاقت کے باوجود اس چھوٹے سے ملک میں امن بھی قائم نہ کر سکے۔

اس بحث اور تنقید کے علاوہ امریکہ برطانیہ اور نیٹو کے متعلقہ اداروں اور تھنک ٹینک نے 16 جولائی کو عالمی میڈیا کو ان نقصانات کی تفصیلات فراہم کیں جو کہ 20 سالہ جنگ کے دوران فریقین کے ہوئے ہیں ۔ ان تفصیلات کو حتمی اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان ممالک کے معتبر ترین اداروں نے متعلقہ ریاستوں کے ڈیٹا سے حاصل کرکے جاری کی ہیں۔ان معلومات کی رو سے 20  سالہ افغان جنگ کے دوران امریکہ اور نیٹو کے 3700 فوجی ہلاک ہوگئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 16 ہزار ہے جن میں تیرہ  سو معذور ہوئے۔  امریکہ ہی کی سرپرستی میں کام کرنے والے پرائیویٹ سیکورٹی کنٹریکٹرز کو بھی بھاری جانی نقصان پہنچا ہے اور تفصیلات میں ان کی اموات3900بتائی گئی ہیں  اگر دونوں ہلاکتوں کو جمع کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ اس جنگ میں امریکا اور اتحادیوں کی تقریبا آٹھ ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔  سگار نامی امریکی سرکاری ادارے کی ایک رپورٹ یہ تعداد دس ہزار سے زائد بتاتی ہے جن میں تقریباً ایک ہزار وہ مغربی باشندے بھی شامل ہیں جو کہ ٹارگٹ کلنگ ، بم دھماکوں اور بمباریوں کے دوران مارےگئے۔

رپورٹس کے مطابق امریکہ نے بالواسطہ یا بلاواسطہ افغانستان میں تقریباً 22.6 کھرب ڈالرز خرچ کیئے ہیں۔  ان میں افغانستان کی تعمیر نو اور بحالی پر 1.43 کھرب ڈالرز خرچ کیے گئے جبکہ ایک اور سگار رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان فورسز اور اداروں کی ٹریننگ، سہولیات اور مراعات پر تقریباً 80 ارب ڈالرز خرچ کیے گئے۔سولہ(16) جولائی کو عالمی میڈیا کو فراہم کی گئیں ان تفصیلات کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں طالبان کی ہوئی ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر عام افغان شہری اور تیسرے نمبر پر افغان فورسز کی ہلاکتیں سامنے آئی ہیں۔  مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2002 کے بعد سہ فریقی حملوں میں طالبان اور دوسرے جہادی گروپوں کی تقریبا 84 ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔  اس ضمن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان کو زیادہ نقصان ڈرون حملوں اور فضائی کارروائیوں کے ذریعے پہنچایا گیا اور افغان فورسز وہ  کارکردگی نہ دکھا سکیں جس کی امریکیوں کو توقع تھی۔  اس نکتے سے قطع نظر طالبان نے فورسز پر مسلسل حملے جاری رکھے جن میں سال 2018  کے بعد تین گناہ جبکہ 2020 میں سات گنا اضافہ ہوا۔ ان حملوں کے نتیجے میں جاری کردہ تفصیلات کے مطابق افغان فوج،  پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کی جو ہلاکتیں 20 برسوں کے دوران ہوئے ہیں وہ 66 ہزار سے 69 ہزار بتائی گئی ہیں۔  ان دونوں فریقین کی طرح عام شہریوں کی بڑی تعداد بھی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔  رپورٹ کی رو سے 2001 کے بعد 17500 عام شہری سہ فریقی حملوں کے دوران جاں بحق ہوگئے جن میں پندرہ ہزار سے زائد بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر ہلاکتیں ہوائی حملوں کے باعث ہوئیں جبکہ دوسرے نمبر پر بم دھماکے ان ہلاکتوں کی وجہ بنے۔  مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ تقریباً 110 بار عوامی تقریبات کو فضائیہ نے نشانہ بنایا۔

عام شہریوں کے مصائب یہیں پر ختم نہیں ہوئے بلکہ ان کو مسلسل ہلاکتوں کے علاوہ جنگ زدہ علاقوں سے نقل مکانی کی صورتحال سے بھی ان برسوں کے دوران گزرنا پڑا۔  رپورٹس کے مطابق نائن الیون کے بعد افغان حکومتوں کے دعوؤں کے برعکس 27لاکھ عام شہری پڑوسی ممالک اور دیگر میں امن کی تلاش میں مہاجرین بن کر گئے جبکہ مزید 32 لاکھ افغانی شہری ملک کے اندر آئی ڈی پیز بنے یا نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔  اس غیر یقینی صورتحال کے بارے میں سگار اور یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق تقریبا ً15 سے 17 لاکھ تک بچوں اور بچیوں کو ابتدائی اور ثانوی تعلیم جبکہ 25 لاکھ کو بنیادی طبی سہولیات سے محروم رہنا پڑا۔

دوسری طرف ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہیں کہ ان 20 برسوں میں نیٹو اور امریکہ کے علاوہ 10 ایشیائی اور عرب ممالک نے بھی اپنے طور پر افغانستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری اور امداد کی مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی عالمی امداد کے باوجود افغانستان جیسے کم آبادی والے ملک میں نہ تو ادارے مستحکم ہو سکے نہ معاشی ترقی کی کوئی قابل ذکر رفتار دیکھنے کو ملی اور نہ ہی یہاں تمام طریقے آزمانے کے باوجود امن قائم ہو سکا۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket